• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ایک شریک کی وفات کے بعد کاروبار سے اس کے گھر کا خرچہ اور تقسیم کے وقت اس کا حساب

استفتاء

مفتی صاحب میں  آپ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ دوبھائی ہیں رشید خان اور ظہیر اللہ۔ رشید کے چار بیٹے ہیں اور ظہیراللہ کا ایک بیٹا ہے انہوں نے اپنا کاروبار شروع کیا پانچ لاکھ سے ،ظہیر کا انتقال ہوگیا اور بیٹے کی عمر سات سال تھی اب بھائی رشید خان اور اس کے تین بیٹوں نے کام کیا کاروبار چلایا ۔اب ظہیر کا ایک بیٹا بڑا ہو گیا اور کاروبار ساٹھ لاکھ تک پہنچ گیا۔ اب ظہیر کا ایک بیٹا رشید خان اور اس کے بیٹے علیحدہ علیحدہ ہونا چاہتے ہیں تو ان میں جو ساٹھ لاکھ تک کاکاروبار ہے اس میں تقسیم کیسے ہو گا ؟رشیدخان کے بیٹے کاروبار چلاتے رہے اور ظہیر کا بیٹا چھوٹا تھااب بڑا ہوا تو کیا ساٹھ لاکھ دونوں بھائیوں کے بیٹوں میں  آدھا  آدھا تقسیم ہوگا یا بیٹوں کا الگ حصہ ہوا اور رشید خان الگ حصہ ہو گا؟

پہلے دو کاروبار تھے ،توڑی لکڑی کا پھر تیسرا بھی شروع کردیا ۔رشید خان جو گھر کا خرچہ کرتے تھے اس میں دونوں فیملیاں شامل تھی رشید خان کے جو تین بیٹے تھے وہ بطور معاونت کام کرتے تھے جنہوں نے تنخواہ وغیرہ نہیں لی بقدر ضرورت لیتے تھے۔رشید خان نے بھی اس میں سے کوئی الگ تنخواہ نہیں لی ۔اس کاروبار سے تین شادیاں ہوئی ہیں،دو شادیاں رشید خان کے بیٹوں کی جس پر تقریبا پانچ لاکھ خرچہ ہوا اور ظہیر اللہ کے بیٹے کی شادی بھی ہوئی جس پر پانچ لاکھ خرچہ ہوا ۔

اب تین کام ہیں لکڑی توڑی اور گیس ،ان کی تقسیم کی کیا صورت ہو گی ؟

وضاحت مطلوب ہے کہ:

۱۔سائل کا عرف کیا ہے ان کے ہاں برادری کی سطح پر اس طرح کے مسئلے کا حل کیا ہوتا ہے برابر برابر تقسیم کی جاتی ہے کمی پیشی کے ساتھ ؟اور کام کرنے والوں کے کام کا محنتانہ دیا جاتا ہے یا نہیں؟

۲۔ظہیر خان کے بیٹے کی جانب سے مطالبہ کیا ہے ؟برابری کا مطالبہ ہے کیا یا کمی پیشی کا ہے؟اس کے مطالبے پر رشید خان اور اس کے بیٹوں کا رد عمل کیا ہے؟

۳۔            سائل کون ہے ؟یعنی متعلقہ لوگوں میں سے کوئی سائل ہے یا باہر کا  آدمی ہے ؟

جواب وضاحت:

۱۔ہمارے ہاں دس دن پہلے ہمارے برادری کے سمجھدار لوگ جن میں اس لڑکے کے ماموں ،نانااور تایا بھی موجودتھے جنہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ جس دن ظہیر کا انتقال ہوا ہے اس وقت جو ظہیر کے حصہ میں جو مال  آیا تھا وہ سارا حصہ اس کے بیٹے کو مل جائے باقی جو پرافٹ ہے اس کے چھ حصے ہوں گے۔ حاجی رشید اور ان کے چار بیٹے اور ایک یتیم لڑکا ان سب میں برابر تقسیم ہوگا۔یتیم کی والدہ کی طرف سے یہ مطالبہ ہے کہ رشید کے چار بیٹے ہیں ان میں ایک کو نکال کر پرافٹ کے پانچ حصے ہونے چائیے،کیونکہ رشید کا چھوٹا بیٹا وہ یتیم کا ہم عمر ہے اس طرح رشید کے تین بیٹیوں کو اس پرافٹ میں سے حصہ مل جائے ،ایک کو حصہ نہ دیں ۔

۲۔ رشید کے بیٹو ںکا مطالبہ یہ ہے کہ ہم نے دس گیا رہ سال محنت کی ہے اس کا ہمیں جائز منافع مل جائے یعنی حصہ مل جائے ۔

۳۔            سائل رشید خان کا بھتیجا ہے ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ مسئلے کے حل کی دوصورتیں ہیں :

1۔            یا تو برادری کی کی ہوئی تقسیم پر اکتفاء کیا جائے اور ممکنہ کمی پیشی کو معافی تلافی پر محمول کیا جائے۔

2۔            یا پھر وراثت کے اور دوسرے اصولوں کو سامنے رکھا جائے ۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ظہیر خان جب فوت ہوا اس کا کل ترکہ میراث ہو گیا جس میں اس کی بیوی کا  آٹھواں حصہ بنتا ہے اور بیٹے کو باقی سات حصے مل گئے ۔یہ حصے کاروبار میں لگے تو ان میں اضافہ ہوا کاروبار میں اضافہ کرنے میں رشید خان اور اس کے تین بیٹوں کی محنت لگی ۔ظہیر خان کا جتنا سرمایہ تھا وہ سرمایہ اور اس پر ہو نے والا اضافہ  آج بھی ظہیر کے بیٹے اور بیوی کا ہے چاہے وہ اضافہ جتنا بھی ہو ۔البتہ اس سرمائے میں اضافہ کرنے میں جن لوگوں نے کردار ادا کیا  ہے انہیں اتنے عرصے کی بازار کے عرف کے مطابق محنتانہ اجرت دی جائے گی ۔ چنانچہ ظہیر خان کے کل سرمائے سے رشید خان اور اس کے کام کرنے والے بیٹوں کی محنت کو کو منہا کر نے کے بعد جو بچے گا وہ ظہیر کے بیٹے اور اہلیہ کا حق ہوگا۔۔نیز رشید خان اور اس کے بیٹے کار وبار سے اخراجات کی مد میں اب تک جو کچھ لے چکے ہیں وہ بھی منہا ہوں گے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved