- فتوی نمبر: 31-151
- تاریخ: 13 جولائی 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > طلاق کا بیان > تحریری طلاق کا بیان
استفتاء
میں آپ کو طلاق دیتا ہوں یہ الفاظ زبانی کہے تھے اور پھر میں نے کہا کہ میں رجوع کرتا ہوں ۔ دوسری بار طلاق دو تین دن کے بعد میسج پر لکھ کر دی، میسج پر تین بار لکھا تھا کہ” میں آپ کو طلاق دیتا ہوں” میں طلاق دینا چاہ نہیں رہا تھا پر مجھے لگا کہ جو پرابلم چل رہی ہے اس کا حل یہی ہے۔ اس صورت میں طلاق ہوگئی یا نہیں ؟
وضاحت مطلوب ہے: (1) پہلی طلاق کے کتنے عرصے بعد رجوع کیا تھا؟ (2) اگر میسج موجود ہیں تو ان کی تصویر بھیجیں یا میسج کے الفاظ کیا تھے وہ لکھ کر بھیجیں۔(3) میسج سے طلاق کی نیت تھی یا نہیں؟ (4) میسج غصے میں بھیجے تھے یا نارمل حالت میں؟
جواب وضاحت: (1) پہلی طلاق کے 10، 15 منٹ بعد ہی رجوع کرلیا تھا۔(2) میسج کے الفاط یہ تھے:
“Mein apko talaq deta hn
Mein apko talaq deta hn
Mein apko talaq deta hn”
(3)میسج سے طلاق کی نیت تھی (4) غصے میں نہیں تھا پر تھوڑا سا جذباتی تھا، کیونکہ مسائل اسی طرح کے تھے۔ مسائل کو حل کرنے کے لیے لگا کہ طلاق دے دینا بہتر ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہو گئی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہوگئی ہے ، لہذا اب رجوع یا صلح کی گنجائش باقی نہیں رہی۔
توجیہ: جب شوہر نے بیوی سے ایک مرتبہ یہ کہا” میں آپ کو طلاق دیتا ہوں” تو اس سے ایک رجعی طلاق واقع ہوگئی ، اور شوہر کے عدت کے اندر رجوع کرنے سے رجوع ہوگیا اور بیوی سے بدستور نکاح باقی رہا ،البتہ شوہر کو مزید دو طلاقوں کا اختیار تھا ۔ پھر اس کے بعد شوہر نے بیوی کو طلاق کی نیت سے جب یہ میسج کیے کہ ” میں آپ کو طلاق دیتا ہوں ، میں آپ کو طلاق دیتا ہوں ” تو اس سے باقی دو طلاقیں بھی واقع ہوگئیں اور بیوی شوہر پر حرام ہوگئی، کیونکہ ہماری تحقیق میں میسج کی تحریر کتابت مستبینہ غیر مرسومہ ہے اور کتابتِ مستبینہ غیر مرسومہ سے شوہر کی طلاق کی نیت ہو یا شوہر نے غصہ یا مذاکرہ طلاق میں طلاق لکھی ہو تو طلاق واقع ہوجاتی ہے۔
فتاوی ہندیہ(1/354) میں ہے:
“و هو كأنت طالق و مطلقة و طلقتك و تقع واحدة رجعية و إن نوى الأكثر أو الإبانة أو لم ينو شيئًا، كذا في الكنز”.
بدائع الصنائع (3/283) میں ہے:
اما الطلاق الرجعي فالحكم الاصلي له هو نقصان العدد فاما زوال الملك وحل الوطء فليس بحكم اصلي له لازم حتي لايثبت للحال وانما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة فان طلقها ولم يراجعها بل تركها حتي انقضت عدتها بانت
فتاوی شامی(4/442)میں ہے:
قال في الهندية: الكتابة على نوعين: مرسومة وغير مرسومة، ونعني بالمرسومة أن يكون مصدرا ومعنونا مثل ما يكتب إلى الغائب. وغير المرسومة أن لا يكون مصدرا ومعنونا، وهو على وجهين: مستبينة وغير مستبينة، فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والأرض على وجه يمكن فهمه وقراءته. وغير المستبينة ما يكتب على الهواء والماء وشيء لا يمكنه فهمه وقراءته. ففي غير المستبينة لا يقع الطلاق وإن نوى، وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق وإلا لا
فتاوی النوازل لابی اللیث السمرقندی(215) میں ہے:
ثم الكتاب اذا كان مستبينا غيرمرسوم كالكتابة علي الجدار واوراق الاشجار وهو ليس بحجة من قدر علي التكلم فلا يقع الا بالنية والدلالة
بدائع الصنائع(3/295) میں ہے:
وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله – عز وجل – {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: 230] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved