• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ایک وارث کا مال کے ہبہ ہونے کا دعویٰ اور دوسروں کا انکار

استفتاء

مفتیان کرام سے ایک شرعی مسئلہ کے بارے رہنمائی درکار ہے۔میرے دادا کے بھائی *** صاحب کا فروری 2022 میں انتقال ہو گیاتھا.ان کے ماں باپ فوت ہو چکے ہیں، اولاد کوئی نہیں ہے، بیوی فوت ہو چکی ہے ،بھائی اور 2 بہنیں بھی فوت ہو چکی ہیں ،البتہ بھائیوں اور بہنوں کی مذکر اور مؤنث اولاد موجود ہے.بڑے بھائی کی مذکر اولاد میں،***،جبکہ چھوٹے بھائی کی مذکر اولاد میں***حیات ہیں۔

سوال یہ ہے کہ *** صاحب نے اپنے،ایک بھتیجے *** کو ایک بار 2 لاکھ اور ایک بار 1 لاکھ روپیہ دیا تھا جو باقی بھتیجوں کے مطابق واجب الاداء ہے جبکہ *** کا کہنا ہے کہ چچا نے 5 سال پہلے مجھے بلا کر 2 لاکھ روپے خرچ کرنے کے لئے بطور ہدیہ دیے اور ایک بار میری بیٹی کی شادی پر ایک لاکھ روپیہ بطور ہدیہ دیے لہٰذا  یہ پیسے میرے ذمہ واجب  الاداء نہیں ہیں۔برائے مہربانی ہماری رہنمائی فرمائیں کہ اس مسئلہ کا کیا حل ہے؟

وضاحت مطلوب ہے: کیا آپ کے پاس اس رقم کے ہبہ ہونے کےثبوت موجود ہیں؟

جواب وضاحت: نہیں ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ رقم *** کی میراث شمار ہوگی جو ان کےبھتیجوں میں برابر تقسیم ہوگی جبکہ بھتیجیوں کو اس رقم میں سے کچھ نہ ملے گا۔

نوٹ:یہ حکم اس صورت میں ہے جب دیگر بھتیجے حلفاًیہ کہیں کہ ہمیں اس رقم کا ہبہ ہونا معلوم نہیں۔

توجیہ:مذکورہ صورت میں *** یہ تومانتے ہیں کہ یہ رقم انہیں ان کے چچا نے دی تھی تاہم ان کا یہ دعوی ہے کہ یہ رقم چچا نے بطور ہبہ کے  دی تھی،جس کا ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں،ایسی صورت میں اگر دیگر ورثاء (مدعی علیہم)ہبہ ہونے کا علم نہ ہونے پرحلف دیدیں تو *** کا دعوی ثابت نہ ہوگااور یہ رقم *** کی وراثت شمار ہوگی۔

فتاوی کاملیہ (123)میں ہے:

قال العلامة محمد کامل الطرابلسي: سئلت فی رجل ادعیٰ علٰی اٰخر عقارًا انه ملكه تلقاه بالارث من ابيه فاجابه المدعیٰ عليه بانی اشتریته من ابیک حال حیاته بكذا وكذا من القروش وانه فی حوزی وتصرفی مدة  تزید علٰی خمسین سنة مع حضورک وعلمک وسکوتک بلاعذر شرعی هل یکون جواب المدعیٰ عليه من باب الاقرار بالتلقی من ابيه فیحتاج الٰی بینة تشهد له بالشّراء ولاینفعه وضع الید والتصرف المدة المذکورة ولاتکون الحادثة من قبیل ما مضی عليه خمس عشرة سنة فاجبت نعم جواب المدعیٰ عليه من قبیل دعویٰ التلقی من مورث المدعی ودعوی التلقی من مورثه اقرار له بالملک ثمّ دعواه الانتقال اليه منه تحتاج الٰی بینة لان کل مدع یحتاج الی البینة ولاینفعه الید المدة المذکورة مع ا لاقرار المذکور ولیس هذا من باب ترک الدعویٰ بل من باب المواخذة بالاقرار ومن اقر بشیٔ لغیره اخذ باقراره ولو کان فی یده احقابًا کثیرة لاتعد افاده المحقق الرملی فی فتاویٰ الخیرية

درمختار (8/347)میں ہے:

(التحليف على فعل نفسه يكون على البتات) أي القطع بأنه ليس كذلك (و) التحليف (على فعل غيره) يكون (على العلم) أي إنه لا يعلم أنه كذلك لعدم علمه بما فعل غيره ظاهرا، اللهم (إلا إذا كان) فعل الغير (شيئا يتصل به) أي بالحالف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved