• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ایک وارث کا وراثت کے مال کو کاروبار میں استعمال کرنا

استفتاء

میرے والد  صاحب 6سال پہلے فوت ہوگئے تھے، اس وقت تک ایک بھائی اور ایک بہن کی شادی ہوچکی تھی اور دو بھائی اور ایک بہن کی شادی رہتی تھی، اس وقت وراثت تقسیم نہیں کی تھی بڑی بہن اور سب کا یہی فیصلہ تھا کہ سب بہن بھائیوں کی شادی ہوجائے تو وراثت تقسیم کریں گے ابھی ایک کی شادی  باقی ہے لیکن وراثت تقسیم کردی ہے ، 4 سال قبل امی کے کہنے پر ایک گھر بیچا جو کہ 36لاکھ میں بکا اس میں امی نے 1042000 کا چھوٹی بیٹی کا پلاٹ بُک کرلیا اور باقی پیسوں کو میں نے پراپرٹی کے کام میں لگا دیا اس میں کچھ اپنے پیسے  بھی ڈالتا رہا،سارے وارثوں کو اس کی خبر تھی اور ان کو بتا کر اس کی زکوٰۃ بھی دیتا رہا اور کسی کو بھی اعتراض نہیں تھا اب وراثت تقسیم کرنی ہے تو جتنے پیسے میں نے کاروبار میں لگائے تھے ورثاء  کو وہی رقم ملے گی یا  جو کاروبار کی ویلیو ہوچکی ہے وہ لیں گے اس  میں میری تنخواہ اور نفع کے پیسے بھی شامل ہیں  جس کی صورت یہ تھی کہ ان پیسوں اور اپنے کچھ پیسے ڈال کر میں نے گھر خریدا تھا جس کا کرایہ آتا  ہے ،میرا پراپرٹی کی خرید وفروخت کا کاروبار ہےاور  میں وہ کرایہ استعمال بھی کررہا ہوں ، وارثوں کو تو کوئی اعتراض نہیں  کہ انہیں  اس وقت  جتنی رقم میں نے استعمال کی تھی اسی کے حساب سے ہی ملے لیکن اس کا حکمِ شرعی کیا ہے؟

وضاحت مطلوب ہے : (1)جب پہلے یہ طے ہوا تھا کہ وراثت سب کی شادی کے بعد تقسیم ہوگی تو پھر ایک کی شادی سے پہلے کیوں تقسیم کی گئی۔ (2) جو گھر بیچا گیا اس میں سے چھوٹی بیٹی کے لیے پلاٹ کیوں لیا گیا اور کیا اس پر سب راضی تھے؟ (3) باقی پیسے جو آپ نے کاروبار میں لگائے تو اس وقت باقی ورثاء سے یہ طے ہوا تھا کہ آپ یہ پیسے کس مد میں لے رہے ہیں بطور قرض یا بطور انویسٹمنٹ ؟ (4) تنخواہ سے کیا مراد ہے اس کاروبار میں سے تنخواہ یا الگ سے؟ اگرکاروبار سے  ہے تو وہ آپکا ہی تھا پھر تنخواہ کس طور پر تھی؟ (5)جتنی تنخواہ اور نفع شامل ہے اور جتنے پیسے لے لیے ہیں اس کا حساب ہے؟

جواب وضاحت: 1) اصل میں وراثت پوری تقسیم نہیں ہوئی دکانیں ہیں اور اس کا کرایہ 60000 روپے والدہ کو آرہا ہے اور سب نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ شادی کے سارے اخراجات اسی سے پورے کیے جائیں گے جو اس سال کے آخر میں ہوگی اس کے بعد اس کو بھی تقسیم کر دیا جائے گا۔

2)        جی چھوٹی بہن کے پلاٹ لینے پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں تھا وہ انسٹالمنٹ والا پلا ٹ تھا جس کی انسٹالمنٹ اس نے اپنی تنخواہ میں سے دینی تھی۔

3)        جو پیسے میں نے کاروبار میں لگائے اس کے بارے میں وارثوں کے ساتھ کوئی بات طے نہیں ہوئی تھی لیکن والدہ کے ساتھ  یہ بات تھی کہ یہ پیسے واپس کرنے ہیں ۔

4)        میں علیحدہ سے پرائیویٹ کمپنی کے اندر نوکری بھی کرتا ہوں اس کی تنخواہ کی بات ہو رہی ہے۔

5)        نہیں اس طرح سے میرے پاس حساب نہیں ہے کہ کتنے پیسے میں نے اس میں شامل کئے اور کتنا نفع ہواالبتہ ایک چیز ہوسکتی ہے کہ ابھی اس کا حساب لگایا جا سکتا ہے کہ وہ مکان جو بیچا تھا اس کا حساب لگا لیں کہ   اس وقت کتنے کا  ہے حالت تو اس کی تبدیل ہو چکی  ہے کیونکہ کہ پہلے وہ آٹھ مرلہ تھا اور دو حصے تھے    لیکن خریدار نے اب اس کے  تین حصے بنا دیے  ہیں اور منزلیں بھی ایک سے دو تین پر لے گئے ہیں لیکن وہ  بھی پراپرٹی کا کاروبار کرتے ہیں  ان سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسی حالت کے اندر وہ اب مارکیٹ کے اندر کتنے کا بنے گا ۔

نوٹ : یہ سارے معاملات والدہ کے مشورہ سے کیے گئے ہیں سب نے انہیں ہی اختیار دیا ہوا ہے اور سب ان کے فیصلہ پر راضی ہوتے ہیں۔

تنقیح: بندہ کی سائل کے دونوں بھائیوں سے بات ہوئی ہے انہیں اس تحریر سے اتفاق ہے،نیز سائل نے یہ سوال اپنے فیملی گروپ  میں بھی شیئر کردیا تھا،کسی نے اختلاف نہیں کیا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں چونکہ  یہ رقم آپ نے سب ورثاء کی اجازت سے استعمال کی تھی اور جس وقت آپ نے  وہ رقم لی تھی ورثاء سے یہ طے نہیں ہوا تھا کہ یہ بطور انویسٹمنٹ ہے اور والدہ  نے بھی واپس وہی پیسے کرنے کا کہا تھا اس لیے یہ رقم قرض شمار ہوگی اور اب آپ کے ذمے اتنی رقم ہی لوٹانا ضروری ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved