- فتوی نمبر: 22-206
- تاریخ: 06 مئی 2024
- عنوانات: عبادات > نماز > نماز وتر کا بیان
استفتاء
عن أبى أيوب الأنصارى قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم« الوتر حق على كل مسلم فمن أحب أن يوتر بخمس فليفعل ومن أحب أن يوتر بثلاث فليفعل ومن أحب أن يوتر بواحدة فليفعل ».رواه ابوداؤد والنسائي وابن ماجه
حضرت ابو ايوب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :وتر ہر مسلمان پر واجب ہے ،جسے پسند ہو کہ وہ پانچ وتر پڑھے تو وہ پانچ پڑھے ،جو تین پڑھنا پسند کرے تو وہ تین پڑھے اور جسے ایک وتر پڑھنا پسند ہو تو وہ ایک پڑھے۔
میرا سوال ایک وتر پڑھنے کے بارے میں ہے کیا ایک وتر پڑھ سکتے ہیں ؟اگر اس حدیث کی روشنی میں ایک وتر پڑھنا چاہوں تو کوئی حرج تو نہیں ہے ؟کیونکہ میں فقہ حنفی سے تعلق رکھتا ہوں پلیز جواب دیجیئے ۔حنفی اجازت نہیں دیتے جبکہ حدیث موجود ہے اور اہل حدیث کہتے ہیں کہ آپ ایسا کرسکتے ہیں ایک وتر پڑھ سکتے ہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
ایک رکعت وتر پڑھنا جائز نہیں وتر ایک سلام کے ساتھ تین رکعت پڑھنا ضروری ہے ۔
سنن أبى داود (1/ 517) میں ہے:
عن عبد الله بن أبى قيس قال قلت لعائشة رضى الله عنها : بكم كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يوتر قالت : كان يوتر بأربع وثلاث وست وثلاث وثمان وثلاث وعشر وثلاث …الخ.
ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن قیس فرماتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کتنی رکعتیں پڑھتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا: کبھی چار اور تین، کبھی چھ اور تین، کبھی آٹھ اور تین اور کبھی دس اور تین ۔
مستدرک حاکم (1/304) میں ہے:
عن عائشة رضي الله عنها قالت كان رسول الله صلى الله عليه و سلم لا يسلم في الركعتين الأوليين من الوتر.
ترجمہ:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وتر کی دو رکعتوں کے بعد سلام نہیں پھیرتے تھے۔
ان دو روایتوں سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ تین رکعت وتر پڑھا کرتے تھے اور درمیان میں سلام نہیں پھیرتے تھے بلکہ آخر میں سلام پھیرتے تھے۔ نیزآپ ﷺسے وتر میں جو قرأت منقول ہے وہ تین رکعت کی قرأت ہے ایک رکعت کی قرأت کسی حدیث میں منقول نہیں۔
سنن نسائی (1/119)میں ہے:
عن أبي بن كعب، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرأ في الوتر في الركعة الأولى بسبح اسم ربك الأعلى، وفي الركعة الثانية بقل يا أيها الكافرون، وفي الركعة الثالثة بقل هو الله أحد، ولا يسلم إلا في آخرهن.
ترجمہ: حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ وتر کی پہلی رکعت میں ’’ بسبح اسم ربك الأعلى‘‘ (کی سورت) اور دوسری میں ’’ قل يا أيها الكافرون‘‘ (کی سورت) اور تیسری رکعت میں ’’ قل هو الله أحد‘‘ (کی سورت) پڑھتے تھے اور سلام صرف ان کے آخر میں پھیرتے تھے۔
الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ص: 956، رقم الحدیث: 3544) میں ہے:
عن عبد الله قال: أرسلت أمي ليلة لتبيت عند النبي صلى الله عليه وسلم فتنظر كيف يوتر فصلى ما شاء الله أن يصلي حتى إذا كان آخر الليل وأراد الوتر قرأ: بسبح اسم ربك الأعلى في الركعة الأولى وقرأ في الثانية: قل يا أيها الكافرون. ثم قعد، ثم قام ولم يفصل بينهما بالسلام ثم قرأ بقل هو الله أحد حتى إذا فرغ كبر ثم قنت فدعا بما شاء الله أن يدعو ثم كبر وركع. إلخ
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی والدہ کو ایک دفعہ رات گذارنے کے لیے نبی علیہ الصلاۃ و السلام کے یہاں بھیجا تاکہ وہ یہ دیکھیں کہ آپ وتر ﷺ کیسے پڑھتے ہیں (آپ کی والدہ فرماتی ہیں کہ) آپ ﷺنے نماز پڑھی جتنی کہ اللہ تعالیٰ نے چاہی حتیٰ کہ جب رات کا اخیر ہو گیا اور آپ ﷺنے وتر پڑھنے کا ارادہ کیا تو پہلی رکعت میں ’’سبح اسم ربك الأعلى ‘‘ اور دوسری میں ’’قل يا أيها الكافرون‘‘ پڑھیں پھر قعدہ کیا پھر قعدہ کے بعد کھڑے ہوئے اور ان کے درمیان سلام کے ساتھ فصل نہیں کیا پھر آپ ﷺنے ’’قل هو الله أحد‘‘ پڑھی جب آپ قراءت سے فارغ ہوئے تو تکبیر کہی اور دعا قنوت پڑھی اور قنوت میں جو اللہ نے چاہا دعا مانگی پھر اللہ اکبر کہہ کر رکوع کیا۔
باقی رہی ایک رکعت وتر والی حدیث تو وہ ابتدائی زمانہ پر محمول ہے جس سے بعد میں منع کردیا گیا چنانچہ موطأ امام محمد میں ہے:
عن أبي سعيد الخدري أن رسول الله صلى الله عليه و سلم نهى عن البتيراء أن يصلي الرجل ركعة واحدة يوتر بها. (2/15، باب السلام فی الوتر، رقم الحدیث: 258)
ترجمہ:حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بتیراء (دم کٹی) نماز سے منع فرمایا جو یہ ہے کہ آدمی وتر کی ایک رکعت پڑھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved