• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ایمرجنسی معذرت کی صورت میں ایک ماہ کی پیشگی تنخواہ کا معاہدہ

استفتاء

محترم و مکرم مفتیان کرام دامت برکاتکم العالیہ کی خدمت میں عرض ہے کہ مندرجہ ذیل مسئلہ میں قرآن و سنت کے

مطابق میری رہنمائی فرما کر ممنون فرمائیں۔ تاکہ در پیش پریشانی دور ہو سکے۔

گذارش ہے کہ بندہ کا مارچ 2014ء میں ایک مدرسہ میں بحیثیت مدرس برائے حفظ کلاس تقرر ہوا۔ تقرری کے  وقت بندہ اور محترم مہتمم صاحب کے درمیان طے ہوا کہ اگر کسی وجہ سے عذر معذور کی نوبت آجائے تو مہتمم صاحب نے فرمایا اگر میں آپ سے معذرت کروں گا تو کم از کم ایک ماہ پہلے آپ کو معذرت کی اطلاع کروں گا اور ایمرجنسی کی صورت میں معذرت کرنا پڑی تو ایک ماہ کی پیشگی تنخواہ ادا کروں گا اور جو مہینہ کام کیا ہے اس کی علیحدہ تنخواہ ملے گی۔  اگر آپ معذرت کریں گے تو بھی کم از کم ایک ماہ پہلے بتائیں گے تاکہ ہم اپنا انتظام کر سکیں۔

ہوا یہ کہ مدرسہ کی تین کلاسز میں سے کسی ایک کلاس کی شکایت بذریعہ خط آئی جس پر تمام اساتذہ کی پیشی مہتمم صاحب کے ہاں ہوئی جبکہ فی الحقیقت یہ دوسری کلاس کا  مسئلہ تھا۔ بندہ کو نہ اس کا علم تھا نہ تعلق، دوران تحقیقات مہتمم صاحب جذبات میں آئے، تو بندہ نے ان کے جذبات کا جواب دیا کہ حضرت آپ ہمارے بڑے ہیں، تو بڑے بن کر ہی بات کریں، ورنہ غصہ تو ہر ایک کو ہی آسکتا ہے۔ تو اس بات پر مہتمم صاحب نے فرمایا آپ ادارہ کے ضابطے کے پابند ہو کر نہیں چلے۔ تو بندہ نے عرض کیا ہم اگر پابند بن کرنا چلتے تو آپ کے ساتھ 4 سال خدمت نہ کرتے۔ اس سوال و جواب پر 6 بندوں کے سامنے فرمایا کہ جب آپس کا لحاظ باقی نہ رہے تو کام کرنا مشکل ہو جاتا ہے، اور آپ نے میرا لحاظ نہیں کیا۔ لہذا آپ سے تو ابھی معذرت، اب مل کر چلنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔

1۔ اب سوال یہ ہے کہ اس اچانک معذرت پر میری آئندہ ایک ماہ کی تنخواہ بنتی ہے ہے کہ نہیں؟ اس کی کیا حیثیت ہے؟

وہ یہ کہہ کر نہیں دے رہے کہ آپ نے ضابطہ کی پابندی نہیں کی۔ جبکہ ضابطہ میں یہ طے نہیں تھا کہ میرا لحاظ کرنا بھی ادارہ کا ضابطہ ہے جبکہ قریب ہی کئی لوگوں کے  سامنے اور بنات اور بنین کے اساتذہ کی موجودگی میں میرے اوپر اعتماد کا اظہار بھی فرما چکے ہیں۔

2۔ اب وظیفہ نہ دینے کی دوسری وجہ یہ بتا رہے ہیں کہ آپ بھی طلبہ کی پٹائی کر کے ادارہ کے ضابطہ کی خلاف ورزی کر چکے ہیں۔ جبکہ کسی بھی موقع  پر ثبوت پیش کر کے بروقت فارغ نہیں کیا۔ کیا اب ان تاویلات کی بنیاد پر سائل کی خود طے کردہ تنخواہ روکنا جائز ہے؟ جبکہ بندہ معاف بھی نہ کرے تو عند اللہ اس کا کیا حکم ہے؟ برائے مہربانی رہنمائی فرما کر سائل کی پریشانی میں مدد فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر واقعتاً مدرس اور مہتمم کے درمیان یہ طے پایا تھا کہ ’’ایمرجنسی کی صورت میں معذرت کرنی پڑی تو ایک ماہ کی تنخواہ پیشگی ادا کروں گا اور جو مہینہ کام کیا ہے اس کی علیحدہ تنخواہ ملے گی‘‘ تو مذکورہ صورت میں مہتمم کے ذمے ایک ماہ کی پیشگی تنخواہ بنتی ہے۔ اگر مدرس معاف نہ کرے تو آخرت میں دینی پڑے گی۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved