- فتوی نمبر: 4-302
- تاریخ: 16 دسمبر 2011
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
ہم چار ساتھیوں نے مل کر مشترکہ طور پر ایک رہائشی ٹاؤن بنایا ہے۔ جس میں سے ہم مکانوں کے لیے پلاٹ فروخت کر رہے ہیں۔مسجد کے لیے ہم نے باہمی رضامندی سےجگہ دی ہوئی ہے۔ یعنی وقف کی ہوئی ہے۔ ہم چاروں ساتھی الحمد للہ مسلمان ہیں۔
1۔ اب کچھ عیسائی حضرات ہم سے پلاٹ خریدنا چاہتے ہیں ، کیا ان کے مکان کے لیے پلاٹ فروخت کرنا جائز ہے؟
2۔ اور وہ ہم سے چرچ کے لیے جگہ مانگ رہے ہیں کیا ہم کالونی میں چرچ کے لیے جگہ شرعا دے سکتے ہیں؟
3۔ اور اگر وہ ہمیں اس کی قیمت دینا چاہیں تو کیا چرچ کے لیے جگہ فروخت کرنی جائز ہے؟
4۔ اگر ہم چاروں میں سے کوئی بھی شرعی فتویٰ یا مسئلہ نہ مانے تو باقیوں کے لیے کیا حکم ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ مکان کے لیے پلاٹ فروخت کرسکتے ہیں۔
2۔ چرچ کے لیے جگہ دینا درست نہیں ، نہ ہی فروخت کرسکتے ہیں۔
في الدر المختار: الذمي إذا اشترى داراً أي أراد شراء ها في المصر لا ينبغي أن تباع منه فلو اشترى يجبر على بيعها من المسلم ، وقيل لا يجبر إلا إذا كثر.درر
و في الحاشية: قال السرخسي في شرح السير فإن مصر الإمام في أراضيهم ( اهل الزمة: ناقل ) للمسلمين كما مصر عمر رضی الله عنه البصرة و الكوفة. فاشترى بها أهل الذمة داراً و سكنوا مع المسلمين لم يمنعوا من ذلك فإذا قبلنا منهم عقد الذمة ليقضوا على محاسن الدين فعسى أن يؤمنوا… و اختلاطهم بالمسلمين و السكن معهم يحقق هذا المعنى.
و كان شيخنا الإم شمس الأئمة الحلواني يقول: هذا إذا قلوا و كان بحيث لا تتعطل جماعات المسلمين و لا تتقلل الجماعة بسكناهم بهذه الصفة . فأما إذا كثروا على وجه يؤدي إلى تعطيل بعض الجماعات أو تقليلها منعوا من ذلك و أمروا أن يسكنوا ناحية ليس للمسلمين فيها جماعة، و هذا محفوظ عن أبي يوسف في الأمالي.(4/ 209)
و في الدر المختار: و لا يجوز أن يحدث بيعه و لا كنيسة ولا صومعة و لا بيت نار ولا مقبرة و لا صنماً في دارالإسلام و لو في قرية في المختار. فتح.
و في الحاشية: فقد علم أنه لا يحل الإفتاء الاحداث في القرى لأحد من أهل زماننا بعد ما ذكرنا من التصحيح و الاختيار للفتوى. (4/ 202 )۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved