- فتوی نمبر: 27-188
- تاریخ: 13 ستمبر 2022
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
1.بےبی(بچگانہ)آئٹم کے کاروبارمیں اکثر جانسن بے بی کی آئٹم ایکسپائر (Expire)آجاتی ہیں ویسے ایکسپائر (Expire) ہوتی ہیں لیکن استعمال میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا کیا ان کو بیچنا جائز ہے؟
- اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس کوری ڈیٹ(Redate)کرکے مارکیٹ میں بیچاجاتاہے تو ان کی خریدوفروخت جائز ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1.درج ذیل شرائط کا خیال رکھا جائے تو ایکسپائر اشیاء کو بیچنا جائز ہے ورنہ جائز نہیں۔
(۱) وہ اشیاء مضر صحت نہ ہوں۔
(۲) ایکسپائر ہونے کے باوجود ان اشیاء سے جو فائدہ مقصود ہوتا ہے وہ فائدہ ان اشیاء میں پورے طور پر موجود ہو یا قریب قریب پورا فائدہ موجود ہو۔
(۳) خریدار نے اگر یہ چیزیں خود استعمال کرنی ہیں تو انہیں یہ معلوم ہو کہ یہ ایکسپائر ہیں اورآگے بیچنی ہیں تو آپ کو جس خریدار کے بارے میں یقینی طورپرمعلوم ہو یا آپ کو غالب گمان ہوکہ وہ اگلے خریدار کو بتا کر نہیں بیچے گا تو اسے بیچنا جائز نہیں ورنہ جائز ہے۔
2.اس میں بھی وہی تفصیل ہےجو نمبر 1کی شرط نمبر3میں مذکور ہوئی۔
المستدرك على الصحيحين للحاكم مع تعليقات الذہبی فی التلخيص (2/ 257)میں ہے:
عن عقبة بن عامر الجهني قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : المسلم أخو المسلم و لا يحل لمسلم إن باع من أخيه بيعا فيه عيب أن لا يبينه له هذا حديث صحيح على شرط الشيخين و لم يخرجاه تعليق الذهبي قي التلخيص : على شرط البخاري ومسلم
صحيح مسلم – عبد الباقی (1/ 99) میں ہے:
عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على صبرة طعام فأدخل يده فيها فنالت أصابعه بللا فقال ما هذا يا صاحب الطعام قال أصابته السماء يا رسول الله قال أفلا جعلته فوق الطعام كي يراه الناس من غش فليس مني
حاشیۃ ابن عابدين (5/ 47) میں ہے:
لا يحل كتمان العيب في مبيع أو ثمن لان الغش حرام
قوله ( لأن الغش حرام ) ذكر في البحر أول الباب بعد ذلك عن البزازية عن الفتاوى إذا باع سلعة معيبة عليه البيان وإن لم يبين قال بعض مشايخنا يفسق وترد شهادته قال الصدر لا نأخذ به ا هـ قال في النهر أي لا نأخذ بكونه يفسق بمجرد هذا لأنه صغيرة ا هـ قلت وفيه نظر لأن الغش من أكل أموال الناس بالباطل فكيف يكون صغيرة بل الظاهر في تعليل كلام الصدر أن فعل ذلك مرة بلا إعلان لا يصير به مردود الشهادة وإن كان كبيرة كما في شرب المسكر
تبيين الحقائق (3/ 296) میں ہے:
وكره بيع السلاح من أهل الفتنة ) لأنه إعانة على المعصية قال الله تعالى { وتعاونوا على البر والتقوى ولا تعاونوا على الإثم والعدوان } ولأن الواجب قلع سلاحهم بما أمكن حتى لا يستعملوه في الفتنة فالمنع أولى قال رحمه الله ( وإن لم يدر أنه منهم لا ) أي لم يدر أنه من أهل الفتنة لا يكره البيع له لأن الغلبة في دار الإسلام لأهل الصلاح وعلى الغالب تبنى الأحكام دون النادر۔
جوہرۃ النیرۃ(6/178)میں ہے:
( ويكره بيع السلاح في أيام الفتنة ) معناه ممن يعرف أنه من أهل الفتنة كالخوارج والبغاة لأن في ذلك معونة علينا وإن كان لا يعرف أنه من أهل الفتنة فلا بأس بذلك
ہدایہ(2/172)میں ہے:
قال ويكره بيع السلاح من أهل الفتنة وفي عساكرهم لأنه إعانة على المعصية وليس ببيعه بالكوفة من أهل الكوفة ومن لم يعرفه من أهل الفتنة بأس لأن الغلبة من الأمصار لأهل الصلاح وإنما يكره بيع نفس السلاح لا بيع مالا يقاتل به إلا بصنعة ألا ترى أنه يكره بيع المعازف ولا يكره بيع الخشب وعلى هذا الخمر مع العنب والله أعلم بالصواب
درر الحكام (3/441)میں ہے:
( كره بيع السلاح من أهل الفتنة ) لأنه إعانة على المعصية ( وإن لم يدر أنه منهم لا ) أي لا يكره
فتاویٰ رحیمیہ(9/198) میں ہے:
سوال: اس طرف ایک پھل ہوتا ہے جسے غریب عوام بطور غذا استعمال کرتے ہیں اس کا نام مہوا ہے لیکن زیادہ تر اس سے شراب کشید کی جاتی ہے، ا س کو جمع کرکے رکھنا اور موسم کے بعد اس کو فروخت کرنا کافی نفع بخش ہوتا ہے لیکن موسم کے بعد جو لوگ خریدتے ہیں وہ عموماً شراب بنانے کے لیے ہی خریدتے ہیں۔ ا سکی تجارت جائز ہے یا نہیں؟
جواب: موسم کے بعد مہوا کے خریدار عموماًا س سے شراب کشید کرتے ہیں ۔ ا س لیے ان لوگوں کو بیچنا جو اس سے شراب بناتے ہیں ممنوع ہے کہ ا س میں اعانت علی المعصیت ہے۔ فرمان خدواندی ہے:’’ولا تعاونوا على الاثم والعدوان‘‘یعنی معصيت اور زیادتی كے كاموں میں ایک دوسرے کی اعانت مت کرو اور جو لوگ اس کا جائز استعمال کرتے ہیں ان کو بیچنا ممنوع نہیں۔
فتاویٰ عثمانی(3/84) میں ہے:
سوال: روزے کے دوران بیکری کا سامان فروخت کرسکتے ہیں یا نہیں؟اور پتہ ہو کہ یہ شخص روزے کی حالت میں بھی کھائے گا تو اسے بھی فروخت کرنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب:رمضان میں بیکری کا سامان فروخت کرنا جائز ہے۔ البتہ جس شخص کے بارے میں یہ معلوم ہو کہ وہ بغیر کسی عذر کے دن کے وقت کھانے کے لیے خرید رہا ہے ا سے بیچنا جائز نہیں، معلوم نہ ہو کہ کیا کرے گا تو جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved