- فتوی نمبر: 9-269
- تاریخ: 04 فروری 2017
- عنوانات: عبادات > زکوۃ و صدقات
استفتاء
ہمارا بڑی مشینری کے لیے استعمال ہونے والے ٹائروں کے در آمد کر کے انہیں آگے فروخت کرنے کا کام ہے، پہلے ہم کاؤنٹر سیل بھی کیا کرتے تھے، مگر اب ترک کر دی ہے۔ اب جو آرڈر ہوتا ہے بس اسی کا مال منگواتے ہیں۔ البتہ پہلے کا گودام میں کافی مال رکھا ہے، جس میں ایسا مال بھی ہے جو خارج از میعاد ہو چکا ہے، اور کچھ مال ایسا ہے جو خارج نہیں ہوا لیکن بکتا نہیں، اس مال پر ہم کس طرح سے زکوٰۃ کی رقم کا تعین کریں۔ پچھلے سالوں کی زکوٰۃ جو ادا نہیں ہوئی، وہ کس طرح ادا ہو گی؟
جواب عنایت فرما کر شکریہ کا موقع دیں۔
واضح رہے کہ جو مال ایکسپائر ہو چکا ہے اسے کوئی عام گاہک تو نہیں لےگا البتہ مارکیٹ میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو ایسے مال کو بھی ریپیئر کر کے چلا دیتے ہیں اس میں کچھ کٹنگ یا جوڑ وغیرہ کر کے چلا لیتے ہیں۔ اس مال کی ویلیو کا اندازہ ایسے ہی ہو سکتا ہے کہ وہاں سے کسی آدمی کو بلا لیں اور اس سے ریٹ لگوائیں، وہ تقریباً کباڑ کے بھاو پر لے لے گا۔
البتہ جو مال بھی تاریخ کے اندر ہے اس کا امکان ہے کہ و اپنے صحیح ریٹ پر بک جائے مثلاً گورنمنٹ کا ہی کوئی آرڈر آجاتا ہے جس میں اس معیار اور سائز کا مال در کار ہوگا تو ہم اس میں بھی استعمال کر سکتے ہیں یا کسی اور کو بھی دے سکتے ہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ آپ کے پاس جو مال پڑا ہے چاہے خارج از میعاد ہو یا دوسرا دونوں پر زکوٰۃ واجب ہے۔ اس مال کی جو بھی متوقع قیمت فروخت ہو اس پر زکوٰٰۃ ہو گی۔
2۔ گذشتہ سالوں کی زکوٰۃ موجودہ مالیت پر نکالی جائے گی۔
فتاویٰ عالمگیری (1/180):
وإن كانت الزيادة في الذات بأن ذهبت رطوبته تعتبر القيمة يوم الوجوب إجماعاً، لأن المستفاد بعد الحول لا يضم وإن كان النقصان ذاتاً بأن ابتلت يعتبر يوم الأداء عندهم.
عمدۃ الفقہ (3/ 78) میں ہے:
’’اگر سامان کی ذات میں نقصان ہو گیا مثلاً بھیگ گیا تو بالاجماع زکوٰۃ ادا کرتے وقت جو قیمت ہے اس کا اعتبار ہو گا۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved