• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ایکسپائر اور B.pairمال بتا کر بیچنا

استفتاء

*** میں واقع ایک کاسمیٹک اسٹور ہے، جہاں پر کاسمیٹک سے متعلق سامان کی ریٹیل اور ہول سیل کے اعتبار سے خرید و فروخت کی جاتی ہے۔

۱۔T.S کی جانب سے ایکسپائر ہوئے مال یا وہ مال جس کی ایکسپائری ڈیٹ مٹ گئی ہو، اس مال کواستعمال کرنے والے( Users)کوفروخت کیاجاتاہے،اوراس پراڈکٹ کی ایکسپائری سےمتعلق مکمل طورپراستعمال کرنے والے ( Users) کو بتا کر بیچا جاتا ہے، غلط بیانی نہیں کی جاتی اور T.S کی جانب سے اس ایکسپائرآئٹم  کی قیمت کو کم کر کے بیچا جاتا ہے، جس میں استعمال کرنے والے ( Users)  کو سہولت ہوتی ہے ۔تاریخ کے اعتبار سے وہ مال ایکسپائر ہوتا ہے لیکن اس  مال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہوتی اور اس مال کو بنانے والی کمپنی کی جانب سے بتائی گئی علامات کے مطابق مال کو چیک بھی کر لیا جاتا ہے اگر وہ خراب نہ ہوا ہو تو فروخت کردیا جاتا ہے،اور اگراس  مال میں کمپنی کی بتائی ہوئی علامات  واضح ہوجائیں تو اس مال کو ضائع کردیا جاتا ہےآگے  نہیں بیچا جاتا۔

۲۔T.S کی جانب سےB.Pairمال  Users کو بتا کر اور قیمت میں کمی کر کے دیا جاتا ہے، البتہ دکاندار حضرات B.Pair مال خریدنے سے اعراض کرتے ہیں۔ بی پئیر مال وہ ہوتا ہے جس کی پیکنگ والا ڈبہ خراب ہو گیا ہو یا  بوتل وغیرہ دب گئی ہو ۔

۱۔ایکسپائر مال فروخت کرنے کا کیا حکم ہے؟

۲۔ بی پیئر(B.pair) مال فروخت کرنے کا کیا حکم ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

درج ذیل شرائط کا لحاظ رکھا جائے تو ایکسپائر اشیاء کا بیچنا جائز ہے ورنہ  جائزنہیں ۔

۱۔وہ اشیاء مضر صحت نہ ہوگئیں ہوں ۔

۲۔ایکسپائر ہونے کے باوجود ان اشیاء سے جو فائدہ مقصود ہوتاہے وہ فائدہ ان اشیاء میں پورے طور پرموجود ہو یا پورے کے قریب قریب  موجود ہو۔

۳۔خریدار نے اگر ایکسپائرچیز  خود استعمال کرنی ہو تو اسے یہ معلوم  کہ  یہ ایکسپائر ہے اور آگے بیچنی ہو تو جس خریدار کے بارے میں آپ کو یقینی طور پر معلوم ہو یا غالب گمان ہو کہ وہ اگلے خریدار کو بتاکر نہیں بیچے گا اسے بیچنا  جائز نہیں ہے اور جس خریدار کے بارے میں یہ غالب گمان نہ ہو کہ وہ آگے بغیر بتائے بیچے گا اسے بیچنا جائز ہے۔

۲۔B.pairمال کو باہمی رضامندی کےساتھ کم قیمت میں بیچنا درست ہے ۔

المستدرک علی الصحیحین للحاکم مع تعلیقات الذہبی  فی التلخیص(۲/۲۵۷)

عن عقبۃ بن عامر الجھنیؓ قال:سمعت رسول اللہ ﷺ یقول المسلم أخو المسلم ولا یحل لمسلم إن باع من أخیہ بیعا فیہ عیب أن لا یبینہ لہ ھذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین ولم یخرجاہ تعلیق الذھبی قی التلخیص:علی شرط البخاری ومسلم۔

صحیح مسلم :عبد الاقی(۱/۹۹)

عن أبی ھریرۃؓ أن رسول اللہﷺ مر علی صبرۃ طعام فأدخل یدہ فیھا فنالت أصابعہ بللا فقال ماھذا یا صاحب الطعام قال أصابتہ السماء یارسول اللہ قال أفلا جعلتہ فوق الطعام کی یراہ الناس من غش فلیس منی۔

حاشیۃ ابن عابدین(۵ْ/۴۷)

لایحل کتمان العیب فی مبیع أو ثمن لأن الغش حرام

قولہ (لأن الغش حرام ) ذکر فی البحر أول الباب بعد ذلک عن البزازیۃ عن الفتاوی إذا باع سلعۃ معیبۃ علیہ البیان وإن لم یبین قال بعض شایخنا یفسق وترد شھادتہ قال الصدرلانأخذبہ۔قال فی النھر أی لانأخذبہ یفسق بمجرد ھذا لأنہ صغیرۃ قلت وفیہ نظر لأن الغش من أکل اموال الناس بالباطل فکیف یکون صغیرۃ بل الظاھر فی تعلیل کلام الصدر أن فعل ذلک مرۃ بلا إعلان لا یصیر بہ مردود الشھادۃوإن کان کبیرۃ کمافی شرب المسکر۔

تبیین الحقائق (۳/۲۹۶)

وکرہ بیع السلاح من أھل الفتنۃ لأنہ إعانۃ علی المعصیۃ قال اللہ تعالی(وتعاونوا علی البر والتقوی ولاتعاونوا علی الإثم والعدوان)ولأن الواجب قلع سلاحھم بما أمکن حتی لایستعملوہ الفتنۃ فالمنع أولی قال رحمہ اللہ(وإن لم یدر أنہ منھم لا)أی لم یدر أنہ من اھل الفتنۃ لا یکرہ البیع لہ لأن الغلبۃ فی دار الاسلام لأھل الصلاح وعلی الغالب تبنی الأحکام دون النادر

جوہرۃ النیرۃ(۲/۱۷۲)

(ویکرہ بیع السلاح فی ایام الفتنۃ)معناہ ممن یعرف أنہ  من اھل الفتنۃ کالخوارج والبغاۃ لأن فی ذلک معونۃ علینا وان کان لا یعرف من اھل الفتنۃ فلا بأس بذلک۔

الھدایۃ(۲/۱۷۲)

قال ویکرہ بیع السلاح من اھل الفتنۃ وفی عساکرھم لأنہ إعانۃ علی المعصیۃ ولیس ببیعہ بالکوفۃ من اھل الکوفۃ ومن لم یعرفہ من اھل الفتنۃ بأس لان الغلبۃ من الأمصار لأھل الصلاح۔

دررالحکام (۳/۴۴۱)

(کرہ بیع السلاح من اھل الفتنۃ)لانۃ إعانۃ علی المعصیۃ (وإن لم یدر أنہ منھم لا)أی لایکرہ۔

فتاوی عثمانی(۳/۸۴)

سوال:روزے کے دوران بیکری کا سامان فروخت کرسکتے ہیں یا نہیں،اور پتہ ہوکہ یہ شخص روزے کی حالت میں بھی کھائے گا تو اسے بھی فروخت کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب:رمضان میں بیکری کا سامان فروخت کرنا جائزہے،البتہ جس شخص کے بارے میں یہ معلوم ہو کہ وہ بغیر کسی عذر کے دن کے وقت کھانے کے لیے خریدرہاہے اسے بیچنا جائز نہیں ہےمعلوم نہ ہو کہ کیا کرےگا تو جائز ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved