• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

فال نکلوانے اور نجومی کو ہاتھ دکھانے کا حکم

استفتاء

(1)کیا یہ جو حساب (فال نامہ )کرواتے ہیں یہ جائز ہے یا نہیں ؟ (2)دوسرا کیا نجومی یا کسی کو ہاتھ دکھانا جائزہے؟  [1]اس کے بارے میں رہنمائی فرمادیں۔

[1] ۔مزیداردوحوالے:

امداد الفتاویٰ (376/5) میں ہے:

سوال: فال نکالنا کیسا ہے، مجھے اس بات کا علم ہے کہ دوشخصوں کے درمیان میں کوئی مقدمہ ہو یا کسی کا مقابلہ ہو اور مجھے ان دونوں کا نام اور عمر معلوم ہو جائے تو میں جان لیتا ہوں کہ کون غالب ہوگا کون مغلوب، کچھ قواعد ہندسہ وغیرہ سے معلوم کرتا ہوں یعنی دونوں کے نام کے حروف کے عدد نکال کر اور عمر معلوم کر کے جان لیتا ہوں کہ فلاں غالب اور فلاں مغلوب ہے اور بعض وقت فقط عمر معلوم کرنے سے علم ہوجاتا ہے، او رگاہے دونوں مقابل کو ایک جگہ دیکھنے سے دل میں آجاتا ہے کہ اس میں فلاں غالب ہوگا اور فلاں مغلوب اور اس بات کو میں مدّت سے آزماتا ہوں ، ہمیشہ مطابق پاتا ہوں جس سے میرے دل میں یہ آگیا ہے کہ یہ خداتعالیٰ کی عادات سے ہے کہ ایسا ہی کرتا ہے گو وہ ہر شے پر قادر ہے، جس طرح بذریعہ بدلی ہی کے پانی برساتا ہے اگر چہ وہ قادر ہے کہ بدون بدلی کے برسادے، اب مجھے یہ دریافت کرنا ہے کہ یہ کیا چیز ہے؟ فال ہے یا کوئی دوسری چیز، فال ممنوع ہے یا جائز، بعض عالموں کی زبانی معلوم ہوا کہ یہ فال ہے اور وہ شرعاً ممنوع ہے اورمیں نے ترجمہ احیاءؔ العلوم مذاق العارفین میں بھی دیکھا ہے کہ حضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ میری امّت سے ستر ہزار بلاحساب بہشت میں جاویں گے، تولوگوں نے پوچھا کہ وہ کون لوگ ہیں ، تو آپ انے اس حدیث میں یہ لفظ بھی فرمایا ہے کہ ولایتطیرون وعلی ربھم یتوکلون ’’لا‘‘ یتطیرونکے معنی فال کے ہیں یا کوئی اور معنی ہیں ،اگر فال کے ہیں تو اس حدیث سے ممانعت معلوم ہوتی ہے اور خلاف توکل معلوم ہوتا ہے، پس اگر میرا فعل بھی فال ہے تو میں اس سے توبہ کرنا چاہتا ہوں ، جب سے میں نے اس کو سُنا کہ یہ فال ہے مجھے بہت فکر ہوگئی، کیونکہ میں بہت دنوں سے ایسا کرتا تھا اورہمیشہ مطابق ہونے کی وجہ سے میں کہہ دیا بھی کرتاہوں کہ فلاں غالب اور فلاں مغلوب ہوگا انشاء اللہ تعالیٰ، پس اگر ممنوع ہوتو اب کہنے سے توبہ کرلوں اوراس سے نفرت رکھوں جو حکم شریعت ہو اس سے اطلاع بخشئے، اگر دل میں آنے میں بھی گناہ ہو تو اس کو کیونکر دور کروں اس کی ترکیب ارشاد فرمائیے؟

الجواب: یہ عمل عرافہ ہے جو ایک قسم ہے کہانت کی اور حرام محض ہے، نیز حرمت في نفسہا کے ساتھ موجب افتتان عوام وجہلاء بھی ہے اوردل میں آجانا القاء شیطانی ہے اور اس کا مطابق نکلنا ایساہی ہے جیسا کہنہ اور منجمین کے اخبار کی مطابقت ہے، اول تو مطابقت کا کلیۃً دعویٰ اور اثبات مشکل دوسرے کسی طریق کا موجبِ علم ہو جانا مسلتزم نہیں اس کے جواز کو، چنانچہ تجسّس ممنوع یقیناً مفید خبر صحیح ہو سکتا ہے، پھر بھی حرام ہے، جواز ونا جواز احکامِ شرعیہ سے ہے، اس کے لئے مستقل دلیل کی حاجت ہے اور مانحن فیہ میں حرمت کے دلائل صریح وصحیح موجود ہیں ، پس حرمت کا حکم کیا جاوے گا اور اسباب عادیہ پرمثل سحاب وغیرہ کے اس کا قیاس مع الفارق ہے۔أولا: اس کی صحت مشاہد۔ ثانیاً: سبب مسبب میں وجہ ارتباط ظاہر۔ ثالثاً: شرع میں بھی معتبر۔ رابعًا: اس میں کوئی فتنہ اعتقادی یا عملی نہیں اور مقیس میں سب امور مفقود، پس قیاس محض باطل ہے، فال متعارف بھی اسی قبیل سے ہے، دونوں کا ایک حکم ہے، خواہ تسمیہ متحد ہو یا متغائر اور تطیّر بھی اس کی ایک نوع ہے جس کو حدیث لاطیرۃ میں صاف منفی وباطل فرمایا ہے اس سے کوئی شبہ نہ کرے کہ جائز ہوگا؛ لیکن خلاف اولیٰ ہوگا، اصل یہ ہے کہ توکل کے بعض مراتب یعنی اعتقادی توکل فرض اورشرائط ایمان سے ہے، تطیّر اس توکل کے خلاف ہے؛ اس لئے حرام اور شعبہ شرک کا ہے، جیساکہ اور احادیث سے مفہوم ہوتا ہے اور جس فال کا جواز ثابت ہے اس میں اعتقاد یا اخبار نہیں ہے؛ بلکہ کلمات خیر سے رجاء رحمت ہے جوویسے بھی مطلو ب ہے وإني ہذا من ذاک اور یہاں مانحن فیہ میں اوّل اعتقاد ہے پھر اخبار پھر بدگمانی اور یا س بھی اس لئے اس کے ممنوع ہونے میں کوئی شبہ نہیں ، اسی طرح شاید کسی کو استخارہ سے شبہہ پڑے تو وہ واقعہ پر استدلال کرنے کے لئے موضوع و مشروع نہیں ، صرف مشورہ کے درجہ میں ہے، بخلاف اس کے واقعات پر استدلال ہے، عرض یہ بالکل حرام ہے اور توبہ کرنا اس سے فرض ہےاور دل میں اگر اس طرح آوے کہ اس کو حرام بھی سمجھا جاوے تو کوئی گناہ نہیں ۔ واللہ تعالیٰ اعلم

نیز امداد الفتاویٰ (397/5) میں ہے:

سوال: مسلمان کو علم نجوم پڑھنا کیسا ہے اور نجومی نے جن لوگوں کو اخبارغیبی بتلا کر زردلباس وغیرہ فراہم کیا ہے، شرعاً وہ کمائی کیسی ہے، بعض لوگوں کا مقولہ ہے کہ یہ علم حق تعالیٰ نے حضرت ادریس علیہ السلام کو تعلیم کیاتھا اور نجومی جو وقوع حوادث آئندہ کو امر تقدیری ہے بقواعد نجوم بتاتا ہے، یہ کچھ علم غیب میں شمار نہیں تو مسلمانان معتقدین نجوم کا اس طرح عقیدہ رکھنا اور بیان کرنا شریعت میں کیسا سمجھا جائے گا؟

الجواب: چونکہ اس پر مفاسد اعتقادیہ و عملیّہ مرتب ہوتے ہیں ، لہٰذا حرام ہے اور بعض اوقات مفضی بکفر ہے۔اورایسی کمائی بھی حرام ہے، اس مقولہ کا جواب یہ ہے کہ اولاً یہ روایت ثابت نہیں دوسرے وہ خاص قواعد سند صحیح سے منقول نہیں ، جس سے یہ کہا جاوے کہ یہ وہی علم ہے،تیسرے عام طورپر خود اہل فن اوردوسرے رجوع کرنے والے بھی کواکب کو متصرف وفاعل مستقل سمجھتے ہیں جو مثل عقیدہ علم غیب کے خود یہ عقیدہ و استقلال فعل و تصرف کا شرک جلی اور منافی توحید ہے، چوتھے جو علم بلا اسباب علم ہو وہ علم غیب ہے اور جو چیز اسباب علم سے نہ ہو اس کا سبب سمجھنا باطل ہے اور کواکب کا اسبابِ علم سے ہونا ثابت نہیں ، پس یہ اسبابِ علم نہ ہوئے تو ان کو اسباب سمجھنا باطل ہوا پس اُن کے ذریعے سے جس علم کے حاصل ہونے کا دعویٰ کیا جاوے گا وہ علم بلا اسباب ہوگا اور یہی علمِ غیب ہے، پس اہل نجوم اس اعتبار سے مدعی علمِ غیب ہوئے اوران کا مصدّق معتقد علم غیب کا ہوا، پانچویں جس طرح عقیدہ باطلہ معصیت ہے اسی طرح عمل غیر مشروع بھی معصیت ہے اور نجومی اس سے خالی ہے نہیں ؟

نیز امداد الفتاویٰ (400/5) میں ہے:

سوال: فال دیکھنا قرآن مجید میں اس طورپر کہ پہلے سورۂ فاتحہ واخلاص و درود پڑھ کر قرآن مجید کھولا جاوے اور سات ورق الٹ کر ساتویں سطر پر پہلے صفحہ کے دیکھا جاوے یہ امر شرع سے جائز ہے یا ناجائز اور جو امر فال سے پیدا ہو آئندہ یا موجودہ یا گزشتہ کے بارے میں اس پر یقین لانا کیسا ہے، اگر جائز ہے تو اس کا طریقہ مسنون یا ماثور کیا ہے اور اگر ناجائز ہے تو ارشاد ہو کہ اس حدیث کا کیا مطلب ہے؟کان رسول اللهﷺ یحب الفال و یکرہ الطیرۃ نیز مستند کتب و بعض ملفوظات و مکتوبات اہل تصوف میں یہاں تک لکھ دیا ہے کہ یخرج فهو بمنزلة الوحی یہ بھی عرض کر دینا مجھے مناسب ہے کہ قرآن مجید سے فال دیکھنے کے بارے میں جہاں تک اس حقیر مستفتی کوخیال ہے علماء کو اختلاف ہے ایک گروہ حرمت کا تو دوسرا اباحت کا قائل ہے، اگر یہ امر صحیح ہے تو ارشاد ہو کہ قول راجح کونسا ہے اور وجوہ ترجیح کیا ہیں اور امر احوط کیا ہے؟ فقط

الجواب: جس طرح اورجس اعتقاد سے عوام و خواص کا لعوام میں مروج ہے وہ ناجائز ہے اور مشابہ ہے عیافۃ وغیرہ کے اور جو یحب الفال کے درجہ میں ہو جس کی تفہیم تام اس تحریر سے نہیں ہو سکتی جائز ہے اور ما یخرج الخ اگر کسی ثقہ کا قول ہے مأوّل ہے اور علماء کا اس میں اختلاف نہیں ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

فال نکلوانا یا نجومی کو مستقبل کے احوال وغیرہ جاننے کے لیے ہاتھ دکھانا جائز نہیں۔ ان کی بعض صورتوں میں تو کفر کا بھی اندیشہ ہے۔ اس لیے ان سے بچنا لازمی ہے۔

شامی(370/1)میں ہے:

مطلب في الكاهن والعراف  قوله ( الكاهن قبل كالساحر ) في الحديث: من أتى كاهنا أو عرافا فصدقه بما يقول فقد كفر بما أنزل على محمد أخرجه أصحاب السنن الأربعة وصححه الحاكم عن أبي هريرة والكاهن كما في مختصر النهاية للسيوطي من يتعاطى الخبر عن الكائنات في المستقبل ويدعي معرفة الأسرار والعراف المنجم وقال الخطابي هو الذي يتعاطى معرفة مكان المسروق والضالة ونحوهما اه والحاصل أن الكاهن من يدعي معرفة الغيب بأسباب وهي مختلفة فلذا انقسم إلى أنواع متعددة كالعراف والرمال والمنجم وهو الذي يخبر عن المستقبل بطلوع النجم وغروبه والذي يضرب الحصى والذي يدعي أن له صاحبا من الجن يخبره عما سيكون والكل مذموم شرعا محكوم عليهم وعلى مصدقهم بالكفر وفي البزازية يكفر بادعاء علم الغيب وبإتيان الكاهن وتصديقه وفي التتارخانية يكفر بقوله أنا أعلم المسروقات أو أنا أخبر عن إخبار الجن إياي اه قلت فعلى هذا أرباب التقاويم من أنواع الكاهن لادعائهم العلم بالحوادث الكائنة وأما ما وقع لبعض الخواص كالأنبياء والأولياء بالوحي والإلهام فهو بإعلام من الله تعالى فليس مما نحن فيه اه ملخصا من حاشية نوح من كتاب الصوم

مطلب في دعوى علم الغيب  قلت وحاصله أن دعوى علم الغيب معارضة لنص القرآن فيكفر بها إلا إذا أسند ذلك صريحا أو دلالة إلى سبب من الله تعالى كوحي أو إلهام وكذا لو أسنده إلى أمارة عادية بجعل الله تعالى قال صاحب الهداية في كتابه مختارات النوازل وأما علم النجوم فهو في نفسه حسن غير مذموم إذ هو قسمان حسابي وإنه حق وقد نطق به الكتاب قال تعالى { الشمس والقمر بحسبان } سورة الرحمن الآية 5 أي سيرهما بحسبان واستدلالي بسير النجوم وحركة الأفلاك على الحوادث بقضاء الله تعالى وقدره وهو جائز كاستدلال الطبيب بالنبض على الصحة والمرض ولو لم يعتقد بقضاء الله تعالى أو ادعى علم الغيب بنفسه يكفر اه وتمام تحقيق هذا المقام يطلب من رسالتنا سل الحسام الهندي

 

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved