• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

فارغ ہے

استفتاء

آج سے تقریبا ایک سال پہلے میں نے اپنے بیٹے کی شادی کی اور تقریبا ڈیڑھ یا دو ماہ بعد لڑکی کی یہ ضد ہوئی ہے کہ میں نے اپنے ماں باپ  کے ہاں رہنا ہے۔ اس بات کے اوپر میاں بیوی میں اختلاف رہتا۔ جبکہ لڑکی والوں کو یہ بات بخوبی پتہ تھی کہ میرے بیٹے نے باہر پڑھنے جانا ہے ۔ اور وہ شادی کے تقریبا چھ ماہ بعد لندن چلا گیا۔ وہاں پرآجکل کے حالات کے مطابق نوکری کاملنا بہت مشکل ہوگیاہے۔ آج بتاریخ؛10۔7۔10  سے تقریبا ڈیڑھ ماہ پہلے لڑکی کے والد اور بھائی آئے اور کہنے لگے کہ اگر آپ اجازت دیں تو ہم بچی کو ساتھ لے جائیں ۔ میں نے  اجازت دیدی اور وہ بچی کو ساتھ لیکر چلے گئے وہاں جاکر لڑکی اور اس کے والد نے بچے پر زورڈالنا شروع کیا کہ لڑکی کو باہر بلا لو۔ لیکن ہربارلڑکے نے منع کیا کہ باہر کے حالات ٹھیک نہیں ہیں میں ابھی نہیں بلا سکتا۔ جب لڑکے نے کہا کہ آپ میری بیوی کو لاہور بھیج دیں۔ اور کئی بار اصرار کیا لیکں لڑکی اور لڑکی کے والد نے کافی بدتمیزی کی اس پر لڑکے نے غصے میں آکر کہا کہ” اگرتم میری بیوی کو میرے باپ کے یہاں نہیں بھیجتے ہوتو میری طرف سے تم یعنی (والد) بھائی اور بیوی  فارغ ہو”۔

جب میں نے (یعنی لڑکے کے والد) نے بیٹے سے پوچھا کہ یہ الفاظ تم نے کیا سوچ کر ادا کیے ہیں تو اس نے حلفاً کہا کہ میرے ان الفاظ کا ہرگز مطلب یہ نہ تھا کہ میں اسے طلاق دونگا۔ بلکہ ڈرانے کے لیے کہاتھا۔ اور یہاں یہ ذکر کرتاچلوں کہ لڑکے کو لفظ طلاق سے انتہاسے زیادہ نفرت ہے۔ میں اپنی تسلی کے لیے آپ سے فتویٰ لینا چاہتاہوں کہ کیا کرناچاہیے؟

نوٹ: اب لڑکی والے اس بات پرراضی ہیں کہ لڑکا کراچی آئے اور دوبارہ نکاح کرلے اور یہاں پر ہی گھر بسائے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

"فارغ ہے ” کا لفظ کنایہ ہے جس سے غصہ کی حالت میں جبکہ لڑکی کو واقعہ معلوم ہو تو اس کے حق میں ایک طلاق بائنہ پڑتی ہے۔ لہذا اگر لڑکی کا باپ لڑکی کو نہیں بھیجتا توایک طلاق بائن ہوجائے گی اور دوبارہ نکاح کرناپڑے گاجس کے بعد لڑکے کو آئندہ صرف دوطلاقوں کو حق ہوگا۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved