- فتوی نمبر: 7-46
- تاریخ: 26 اگست 2014
- عنوانات: خاندانی معاملات
استفتاء
۔۔۔ میرے میاں کا اور میرا گھر کی معمولی باتوں پر جھگڑا ہوا، اور میرے میاں نے لڑائی ختم کرنے کے بجائے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنی ماں اور بھابھی کے سامنے *** تین دفعہ یہ لفظ کہہ دیے، پھر ہماری تسلی کے لیے میرے میاں نے مفتی صاحب کو فون کیا، سپیکر کھول کر بات کی کہ میں نے یہ الفاظ نیت کے ساتھ کہہ دیے ہیں، ان کو یقین نہیں ہو رہا آپ تصدیق کر دیں، مفتی صاحب نے کہا کہ اگر آپ کی نیت فارغ کرنی کی تھی تو یہ طلاق ہو گئی ہے، اور اگر غصے میں کہا ہے اور نیت نہیں تھی تو یہ طلاق نہیں ہے، اکرم نے کہا میری نیت صاف ہے ، تو انہوں نے کہا طلاق ہو گئی ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں ایک طلاق بائنہ واقع ہو گئی ہے، لہذا پہلا نکاح ختم ہو گیا ہے، عدت گذرنے کے بعد عورت دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے، اور اگر دوبارہ میاں بیوی اکٹھے رہنا چاہیں تو کم از کم دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ نکاح کر کے رہ سکتے ہیں۔
توجیہ: کیونکہ لفظ***کنایات کی تیسری قسم ہے جو صرف جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں، حالتِ غضب اور مذاکرۂ طلاق میں بلا نیت بھی اس سے طلاق واقع ہو جاتی ہے، البتہ دوسری دفعہ اور تیسری دفعہ "فارغ کرتا ہوں” کے الفاظ سے مزید کوئی طلاق واقع نہ ہو گی، جیسا کہ بحر رائق میں ہے:
قوله لا البائن البائن لا يلحق البائن إذا أمكن جعله خبراً عن الأول لصدقه فلا حاجة إلی جعله إنشاء … و المراد بالبائن الذي لا يلحق البائن الكناية المفيدة للبينونة بكل لفظ كان لأنه هو الذي ظاهراً في الإنشاء في الطلاق… و في الحاوي القدسي إذا طلق المبانة في العدة فإن كان بصريح الطلاق وقع و لا يقع بكنايات الطلاق شيء و إن نوی. (البحر الرائق: 534)
و الكنايات ثلاث حاصله أنها كلها تصلح للجواب أي إجابته لها في سؤالها السابق منه لكن فيها قسم يحتمل الرد أيضاً أي عدم إجابة سؤالها … و قسم يحتمل السب و الشتم لها دون الرد و قسم لا يحتمل الرد و لا السب بل يتمحض للجواب … و لا يتوقف ما تيعين للجواب.
© Copyright 2024, All Rights Reserved