• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

فرض ونفل نمازکے قومہ ،سجدہ میں دیگردعائیں پڑھنا

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ فرض ،سنت اور نفل نمازوں کےرکوع ،قومہ ،سجدوں میں مشہور تسبیحات کے علاوہ دیگر دعائیں پڑھنے کا کیاحکم ہے؟اور یہ بھی واضح فرمائیں کہ یہ دعائیں صرف عربی میں ہی پڑھنا ضروری ہیں یا کسی اور زبان میں بھی پڑھی جا سکتی ہیں ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

نوافل کے رکوع ،سجدہ ،قومہ اور جلسہ میں تسبیحات کے علاوہ دیگردعائیں بھی پڑھ سکتے ہیں   ۔لیکن ہر قسم کی دعا نہیں مانگ سکتے بلکہ صرف وہ دعائیں مانگ سکتے ہیں جن کا سوال بندوں سے نہ کیا جا سکتا ہوکیونکہ ایسی دعاؤوں کے پڑھنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے ۔نیز یہ دعائیں  بھی صرف عربی میں پڑھ سکتے ہیں ،عربی کے علاوہ کسی اور زبان میں پڑھنا مکروہ ہے۔

البتہ فرض نماز کے رکوع ،سجدہ اور قومہ میں تسبیحات کے علاوہ  دیگر دعائیں پڑھنا مکروہ تنزیہی ہے چاہے وہ دعائیں عربی میں ہی کیوں نہ ہوں۔یہ تب ہے جب فرض نماز باجماعت ہو اور مقتدیوں میں ہر طرح کے لوگ ہوں یعنی بیمار،تندرست،بوڑھے ،جوان وغیرہ ورنہ فرض نماز میں بھی مکروہ نہیں۔

حاشیۃ ابن عابدین286/2 میں ہے:

وقد تقدم أول الفصل أن الإمام رجع إلى قولهما بعدم جواز الصلاة بالقراءة بالفارسية إلا عند العجز عن العربية .

 وأما صحة الشروع بالفارسية وكذا جميع أذكار الصلاة فهي على الخلاف فعنده تصح الصلاة بها مطلقا خلافا لهما كما حققه الشارح هناك ، والظاهر أن الصحة عنده لا تنفي الكراهة وقد صرحوا بها في الشروع .

 وأما بقية أذكار الصلاة فلم أر من صرح فيها بالكراهة سوى ما تقدم ولا يبعد أن يكون الدعاء بالفارسية مكروها تحريما في الصلاة .

حاشیۃ ابن عابدین 2/261 میں ہے:

و کذا لا یاتی فی رکوعه و سجوده بغیر التسبیح علی المذهب و ما ورده محمول علی النفل .

قوله:(وماورده)انهﷺکان اذا رکع قال:اللهم لک رکعت…… و اذا سجد قال:اللهم لک سجدت …. و فی الرفع بعد الرکوع یزید:ملء السمٰوٰت…..الخ

قوله ( محمول على النفل ) أي تهجدا أو غيره . خزائن . وكتب في هامشه فيه رد على الزيلعي حيث خصه بالتهجد ا هـ

 ثم الحمل المذكور صرح به المشايخ في الوارد في الركوع والسجود وصرح به في الحلية في الوارد في القومة والجلسة وقال على أنه إن ثبت في المكتوبة فليكن حالة الانفراد ، أو الجماعة والمأمومون محصورون لا يتثقلون بذلك ، كما نص عليه الشافعية ولا ضرر في التزامه وإن لم يصرح به مشايخنا . فإن القواعد الشرعية لا تنبو عنه كيف والصلاة والتسبيح والتكبير والقراءة كما ثبت في السنة .

حلبی کبیر 335 میں ہے:

(ویدعو بما یشبه ألفاظ القرآن و لا يدعو بمايشبه كلام الناس نحو اللهم اكسنى او زوجنى فلانة حتى لو قال ذلك فى وسط الصلوة تفسد صلاته) .

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved