استفتاء
1-میرا ايك سوال ہے کہ امام چار فرض پڑھا رہا ہے دوسری رکعت میں وہ ا لتحیات پڑھنا بھول گیا اور کھڑا ہو گیا اب مقتدی کا لقمہ دینا اور امام کا لوٹنا ٹھیک ہے؟ رہنمائی فرما دیں ۔جزاک اللہ خیرا
2- دوسرا ا سوال یہ ہےکہ امام اور ایک مقتدی نماز ادا کر رہے ہیں اور امام آخری رکعت میں بیٹھا ہوا ہے اب ایک بندہ آیا اور امام کو آگے بڑھنے کا اشارہ کیا اب امام کیا کرے؟ رہنمائی فرما دیں ۔جزاک اللہ خیرا
محمد ظہیر۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1-مذکورہ صورت میں اگر امام صاحب تیسری رکعت کے لیےمکمل کھڑے ہوگئے تھے یا کھڑے ہونے کے زیادہ قریب تھےتو مقتدی کو لقمہ نہیں دینا چاہیے تھا اور نہ ہی امام صاحب کو واپس قعدہ کی طرف لوٹنا چاہیے تھا تاہم اگر امام صاحب قعدہ کی طرف لوٹ آئے توایک قول کے مطابق نماز فاسد ہو جائے گی جبکہ دوسرے قول کے مطابق نماز ہوجائے گی اوردونوں صورتوں میں آخر میں سجدہ سہو کرنا واجب ہوگااور اگر امام نہ مکمل کھڑے ہوئے تھے اور نہ کھڑے ہونے کے قریب تھے بلکہ بیٹھنے کے زیادہ قریب تھے تو مقتدی کا لقمہ دینا بھی درست ہے اور امام کا لوٹنا بھی نہ صرف درست بلکہ ضروری ہے تاہم اس صورت میں سجدہ سہوکرنا واجب نہیں۔
بحر الرائق (2/ 109)ميں ہے:
وإذا استتم قائما لا يعود ثم لو عاد في موضع وجوب عدمه اختلفوا في فساد صلاته فصحح الشارح الفساد لتكامل الجنابة برفض الفرض بعد الشروع فيه لأجل ما ليس بفرض وفي المبتغى بالغين المعجمة إنه غلط لأنه ليس بترك وإنما هو تأخير كما لو سها عن السورة فركع فإنه يرفض الركوع ويعود إلى القيام ويقرأ لأجل الواجب وكما لو سها عن القنوت فركع فإنه لو عاد وقنت لا تفسد على الأصح
مسائل بہشتی زیور (231/1)میں ہے:
مسئلہ:تین رکعت یا چار رکعت والی نماز میں بیچ میں بیٹھنا بھول گیا اور دو رکعت پڑھ کر تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہو گیا تو اگر نیچے کا آدھا دھڑ ابھی سیدھا نہ ہوا ہو تو بیٹھ جائے اور التحیات پڑھ لے تب کھڑا ہو اور ایسی حالت میں سجدہ سہو کرنا واجب نہیں ۔ اگر نیچے کا آدھا بھی سیدھا ہو گیا تو نہ بیٹھے بلکہ کھڑے ہو کر چاروں رکعتیں پڑھ لے فقط اخیر میں بیٹھے اور اس صورت میں سجدہ سہو واجب ہے اگر سیدھا کھڑا ہوجانے کے بعد پھر لوٹ آئے گا اور بیٹھ کر التحیات پڑھے گا تو گناہ گار ہو گا لیکن نماز ہو جائے گی اور سجدہ سہو کرنا بھی واجب ہوگا۔
2-مذکورہ صورت میں امام صاحب قعدہ میں ہی بیٹھے رہیں گےاور اگلی صف کی طرف نہیں بڑھیں گےاور مقتدی کو چاہیے کہ امام کے بائیں طرف امام کی اقتداء میں نماز شروع کر دے۔
فتاوی شامی (371/2) میں ہے:
والذي يظهر أنه ينبغي للمقتدي التأخر إذا جاء ثالث فإن تأخر وإلا جذبه الثالث إن لم يخش إفساد صلاته فإن اقتدى عن يسار الإمام يشير إليهما بالتأخر وهو أولى من تقدمه لأنه متبوع ولأن الاصطفاف خلف الإمام من فعل المقتدين لا الإمام فالأولى ثباته في مكانه وتأخر المقتدي ويؤيده ما في الفتح عن صحيح مسلم قال جابر سرت مع النبي صلى لله عليه وسلم في غزوة فقام يصلي فجئت حتى قمت عن يساره فأخذ بيدي فأدارني عن يمينه فجاء بن صخر حتى قام عن يساره فأخذ بيديه جميعا فدفعنا حتى أقامنا خلفه ا هـ وهذا كله عند الإمكان وإلا تعين الممكن والظاهر أيضا أن هذا اذا لم يكن في القعدة الأخيرة وإلا اقتدى الثالث عن يسار الإمام ولا تقدم ولا تأخر ۔
عمدۃ الفقہ (207/2) میں ہے:
پس اگر قعدہ اخیرہ میں آکر ملے تو نہ امام آگے بڑھے اور نہ پہلا مقتدی پیچھے ہٹے بلکہ تیسرا آدمی امام کے بائیں طرف قعدہ میں بیٹھ کر اقتدا کرلے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved