• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

فیشن، بالوں کی خوبصورت بنانے یا بالوں کی نوکیں خراب ہونے کی صورت میں عورتوں کا بال کاٹنا

استفتاء

1۔ آج کل آگے چہرے کی طرف سے بالوں کی لٹیں کاٹنے کا فیشن ہے۔ اگر کوئی شرعی پردہ کرنے والی خاتون اپنے خاوند کے لیے کاٹے تو اس کا کیا حکم ہے آیا کاٹ سکتی ہے؟ کیونکہ اکثر باہر عورتوں پر نظر پڑنے کی صورت میں خاوندوں کے دل میں بھی خواہش پیدا ہوتی ہے کہ میری بیوی بھی یہ فیشن کرے اور بعض اوقات لڑکیوں کو بھی ایسے فیشن کرنے کا شوق پیدا ہوتا ہے۔

2۔ نیز چٹیا کے نچلے حصے یعنی بالکل آخری نوکیں خراب ہونے کی صورت میں کاٹ سکتے ہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ پردہ دار خواتین کے لیے بھی چہرے کی طرف سے بالوں کی لٹیں کاٹنا جائز نہیں، خواہ اپنے شوق سے کاٹیں یا اپنے شوہروں کی خاطر زینت اختیار کرنے کے لیے کاٹیں، کیونکہ چہرے کی طرف سے بالوں کی لٹیں کاٹنے میں بے دین عورتوں کے ساتھ مشابہت ہے اور خواتین کے لیے بیماری یا حج و عمرے کے علاوہ اپنے بال اس حد تک کاٹنا یا اس انداز سے کاٹنا کہ جس سے مردوں کے ساتھ یا کافر عورتوں کے ساتھ یا بے دین عورتوں کے ساتھ مشابہت ہو جائز نہیں۔

2۔ اگر بالوں کی دو نوکیں بننے کی وجہ سے بالوں کی بڑھوتری رُ ک جائے تو ایسی صورت میں بالوں کے آخر سے ایک آدھ پورے کے برابر بالوں کو کاٹ سکتے ہیں تاکہ بال بڑھنا شروع ہو جائیں۔

الأشباه و النظائر  میں ہے:

و تمنع من حلق رأسها. وفي الحموي: و تمنع عن حلق رأسها ” أي حلق شعررأسها، أقول ذكر العلائي في كراهته  أنه لابأس للمرأة أن تحلق رأسها لعذر مرض و وجع و بغير عذر لا يجوز. المراد بلا بأس ههنا الإباحة لا ترك مافعله أولى و الظاهر أن المراد بحلق شعر رأسها إزالته سواء كان بحلق أو قص أو نتف أو نورة فليحرر. و المراد بعدم الجواز كراهة التحريم كما في مفتاح السعادة و لو حلقت فإن فعلت ذلك تشبها بالرجال فهو مكروه لأنها ملعونة. ( الأشباه مع الحموي: 3/ 73 )

وفي طحطاوي على الدر: قطعت شعر رأسها أثمت و لعنت ….. و المعنى المؤثر التشبه بالرجال ( قوله أثمت ) محمول على ما إذا قصدت التشبه بالرجال و إن كان لوجع أصابها فلا بأس به كذا في الهندية عن الكبرى و يدل على هذا التتقييد المعنى الذي ذكره. ( 4/ 203 )

و في الشامية: قطعت شعر رأسها أثمت و لعنت … و المعنى المؤثر التشبه بالرجال . قوله ( المعنى المؤثر) أي العلة المؤثرة في إثمها التشبه بالرجال فإنه لا يجوز كالتشبه بالنساء. ( 9/ 498 )

امداد الفتاویٰ (4/227) میں ہے:

’’۔۔۔ سوال یہ ہے کہ کیا عورتوں کے لیے بال کٹانے اور وفرہ کی مثل بنانے جائز ہیں یا نہیں؟۔۔۔ الجواب: اس وضع مسئول عنہ کی حرمت پر دلائل صحیحہ قائم ہیں اور جواز کی دلیل میں چند احتمالات ہیں اس لیے حرمت ثابت اور جواز پر استدلال فاسد، امر اول کا بیان یہ ہے کہ مبنیٰ اس وضع کا یقیناً تشبہ بنساء الکفار ہے جو اہل وضع کو مقصود بھی ہے ۔۔۔ اور اطلاق دلائل سے یہ تشبہ ہر حال میں حرام ہے خواہ اس کا قصد ہو یا نہ ہو ۔۔۔۔‘‘

بوادر النوادر (ص: 372) میں ہے:

وفي الأشباه أحكام الأنثى قوله و تمنع من حلق رأسها أي حلق شعر رأسها إلى قوله و الظاهر أن المراد بحلق رأسها إزالته سواء كان بحلق أو قص أو نتف أو نورة …. وعن علي رضي الله عنه قال نهى رسول الله صلى الله عليه و سلم أن تحلق المرأة رأسها، رواه النسائي.

قلت: والحلق عام للقص أيضاً كما ذكر (أي في عبارة الأشباه في قوله ”المراد بحلق رأسها إزالته سواء كان بحلق أو قص إلخ: از ناقل) فشمله الحديث…..اور جو وضع نصاً منہی عنہ ہے اس کو معلل بعلت تشبہ کہنا بلا دلیل ہو گا اس لیے وہ علی الاطلاق منہی عنہ ہو گی خواہ اس میں تشبہ ہو یا نہ ہو کالحلق بالمعنیٰ العام او بالمعنیٰ الخاص، اور جو نصاً منہی عنہ نہ ہو گی اس کا حکم تشبہ پر دائر ہو گا۔

قلت أي محمد رفيق: ”المراد بالحلق بالمعنى العام إزالة الشعر بغير آلة الحلق كالقص و النتف والنورة والمراد بالحلق بالمعنى الخاص إزالة الشعر بآلة الحلق كالموسى.“ فقط و الله تعالیٰ اعلم  [1]

[1] ۔

محترم و مکرم حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم العالیہ

السلام علیکم  و رحمۃ اللہ و برکاتہ

منسلکہ فتوے کے بارے میں آپ کی رائے مطلوب ہے۔

فتوے کا خلاصہ یہ ہے کہ بندہ کے خیال میں عورت کے لیے سر منڈانا مطلقاً منع ہے خواہ تشبہ ہو یا نہ ہو۔ البتہ عذر جسمانی ہو تو علیحدہ بات ہے۔

اور بال کتروانے کا دار و مدار تشبہ پر ہے چنانچہ تشبہ بالرجال یا بالفاسقات ہو گا تو بال کتروانا منع ہو گا ورنہ منع نہیں خواہ  (1)  بغیر عذر کے ہی کیوں نہ ہو۔

جبکہ مفتی شعیب صاحب کا خیال یہ ہے کہ کوئی عذر ہو تو کتروانے کی اجازت ہے ورنہ بغیر عذر کے کتروانا منع ہے خواہ کتروانے کی مقدار تشبہ بالرجال یا بالفاسقات میں داخل نہ ہو مثلاً ایک دو پورے کے بقدر بغیر عذر کے کتروانا۔

تفصیل ساتھ منسلک ہے۔

(1) Normal Range کی بات اصل ہے۔ جہاں منصوص نہ ہو اور عذر و تشبہ بھی نہ ہو وہاں Normal Range والی اصل چلی گی۔

حضرت ڈاکٹر صاحب کی رائے

1۔Normal Range کے برابر یا اس سے کم ہوں تو نہیں کاٹ سکتے۔ اس سے زیادہ بڑے ہوں تو کاٹ سکتے ہیں۔

2۔ Normal Range سے چھوٹے ہوں لیکن دو شاخ ہوں تو بڑھانے کی نیت سے کناروں کو کاٹنا جائز ہے۔

3۔ حج یا عمرہ کرنا ہو تو اس میں قصر ضروری ہے۔ اس وقت بار بار عمرہ کرنے سے بال Normal Range سے چھوٹے ہو جائیں تو جائز ہے۔

4۔ تشبہ بالرجال و بالفساق و الکفار جائز نہیں۔

5۔ بیماری کا عذر ہو یا بال صحیح نہ اگنے کا عذر ہو۔ قصر یا حلق دونوں جائز ہیں۔

1۔ رہی حدیث تو اس پر عمل کرنا دشوار ہے کیونکہ یہ معلوم نہیں کہ ام المؤمنین کس وجہ سے ایسا کرتی تھیں:

i۔  بڑھاپنے کی وجہ سے۔

ii۔ اتنے بالوں کی وجہ یہ تھی کہ بڑھاپے میں بالوں کو سنبھالنا مشکل ہو رہا ہو۔

iii۔ مسلسل حج و عمرہ کی وجہ سے بار بار کاٹنے سے بال چھوٹے ہو گئے ہوں۔

2۔ مشترک وضع والی بات قابل فہم نہیں ہے۔

مفتی شعیب صاحب کی رائے

منسلکہ جواب کا حاصل دو امور ہیں:

1۔ عورت کے لیے عذر کی وجہ سے بال کاٹنا جائز ہے۔ خواہ عذر شرعی ہو جیسے حج و عمرہ یا طبعی ہو جیسے سر میں پھوڑے وغیرہ یا بالوں کا دو شاخہ ہو جانا۔

2۔ بلا عذر بھی (محض زینت کے لیے یا بلا سبب بھی) عورت کے لیے بال کاٹنا جائز ہے۔ لیکن صرف ایک شرط کے ساتھ کہ ان کا کاٹنا مقدار یا انداز میں ایسا نہ ہو کہ اس کے بعد بال مردوں یا فاسق عورتوں کی مشابہت میں داخل ہو جائیں۔ گویا اگر مشابہت والی یہ وجہ نہ ہو تو عورت پر اصلاً بال کاٹنے کی شرعاً کوئی ممانعت نہیں۔ چنانچہ اگر ایک عورت اتنے بال کاٹے کہ وہ مردوں کے بالوں کی آخری حد یعنی کندھے سے کچھ نیچے تک  نہ پہنچیں تو اس میں کوئی حرج نہیں چاہے ایک دو پورے کے بقدر بال کاٹے یا بالشت کے  بقدر بشرطیکہ اس میں مردوں یا فاسق عورتوں کی مشابہت نہ ہو۔

امر اول سے تو اتفاق ہے جبکہ امر ثانی سے اتفاق مشکل ہے۔   جس کی وجوہات یہ ہیں:

1۔ عورت کے لیے لمبے بال زینت ہیں، بعض روایات میں ہے : کچھ فرشتے اللہ کی تسبیح ان الفاظ  سے کرتے ہیں:

سبحان من زين الرجال باللحى و النساء بالذوائب.

زینت کا یہ تصور بالعموم دنیا کے تمام معاشروں میں موجود رہا ہے، نزول شرع کے وقت عربوں کے ہاں بھی بالوں کا طول زینت شمار ہوتا تھا۔ موجودہ مسخ شدہ فطرت والی مغربی تہذیب کے شیوع کی وجہ سے بالوں کا چھوٹا کرنا ایک فیشن بن گیا ہے اور بعض لوگوں کو اچھا لگنا شروع ہو گیا ہے۔ یہ استحسان خلافِ فطرت ہے۔

2۔ قطع شعر کی ممانعت کی وجہ تشبہ بالرجال ہے۔ لیکن یہ تشبہ مطلق قطع میں ہے نہ کہ کسی خاص مقدار میں۔ فقہی عبارات میں و المعنیٰ المؤثر کا یہی مطلب ہے۔

3۔ اگرچہ کچھ عرب علماء نے خاص حد تک بال کاٹنے کی اجازت دی ہے مگر ہمارے تقریباً تمام ارباب فتاویٰ بلا عذر بال کاٹنے کی اجازت نہیں دیتے۔ توجیہات اگرچہ مختلف ہیں مثلاً کچھ حضرات نے حلق کے معنیٰ میں وسعت پیدا کر کے قطع کو بھی اس کا ایک فرد بنایا ہے جبکہ دیگر حضرات نے تشبہ بالرجال پر بنیاد رکھی ہے، اور کسی نے بات کو اس انداز سے لیا ہے کہ بلا ضرورت قطع فاسق عورتوں کا کام ہے۔

توجیہ کے اس اختلاف کے باوجود تقریباً سبھی بلا ضرورت کاٹنے کے عدم جواز پر متفق ہیں۔ اگر اس حد تک بال کاٹنے کی گنجائش ہے جو منسلکہ جواب میں دی گئی ہے تو ان حضرات کا اسے بلا وجہ نظر انداز کرنا ناقابل فہم ہے۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved