- فتوی نمبر: 7-13
- تاریخ: 27 جون 2014
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
انتہائی معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ ہم نے آپ کا لکھا ہو منسلکہ فتویٰ دیکھا ہے، آپ کے جواب دینے کا انتہائی شکریہ، لیکن ایک بات یقیناً ہمارے سوال میں غلط طریقے سے بیان کی گئی تھی، ہم نے اگرچہ صحیح لکھی تھی لیکن وہ بہر حال غلط فہمی کا باعث بن گئی، اس لیے ہمارے مسئلے کا حل اور جواب مکمل نہیں ہوا۔
بات یہ تھی کہ قصور والی زمین سے ہمارے بڑے بھائی نے جو زمینیں خریدی تھیں وہ الگ الگ کے نام نہیں تھیں، بلکہ وہ بشمول بڑے بھائی کے سب ہی کے نام تھیں، کسی کی الگ نامزدگی یا تعیین نہیں کی گئی، جیسے قصور والی اصل زمین مشترکہ تھی ایسے ہی وہ بھی مشترکہ تھیں، ہاں البتہ کچھ پلاٹس انہوں نے اپنے نام سے الگ کیے تھے اور وہ اپنے نام سے خریدے تھے۔
اس وضاحت کی روشنی میں ہمارے سوال کو دوبارہ ملاحظہ فرما لیا جائے۔ اگر اس وضاحت کے باوجود پہلا جواب بدستور ہے تو بہت بہتر اور اگر جواب میں کوئی تبدیلی ہے تو براہ کرم اس کی وضاحت فرما دی جائے، ہم نہیں چاہتے کہ کسی کا حق نا حق لیں۔ ایک با یہ بھی واضح کر دیں کہ ہمارے درمیان اصل مسئلہ ان پلاٹس کا ہے جو انہوں نے اپنے نام سے خریدے ہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
قصور کے قریب والی زرعی زمین چونکہ میراث ہی کی رقم سے خریدی گئی تھی اس لیے وہ میراث ہے، اسی طرح اس زمین پر کام کر کے بڑے بھائی نے جو زمین اور پلاٹ خریدے ہیں وہ بھی میراث میں شامل ہوں گے، البتہ بڑے بھائی کو اتنے عرصہ کے کام کا معاوضہ ملے گا، جو اس نے اپنی زندگی میں اگر پورا نہ لیا ہو تو اس کے حصہ کے بقایا جات پہلے اس کے وارثوں کو پورے دیے جائیں گے۔
باقی بھائیوں نے اپنی ذاتی محنت و سرمائے سے جو کاروبار ہے وہ میراث میں شامل نہیں ہو گا، جس بھائی نے مشترکہ سرمایہ لے کر کارو بار کیا ہے، اس کا مسئلہ بھی بڑے بھائی جیسا ہے۔
میراث کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ کل میراث کو سات حصوں میں تقسیم کر کے ہر بھائی کو ایک ایک حصہ ملے گا، وفات پانے والے بھائی کے حصہ میں سے اس کی بیوہ کو آٹھواں حصہ ملے گا، باقی حصہ اس کی بیٹی اور بیٹے میں ایک اور دو کی نسبت سے تقسیم ہو گا۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved