• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

فتوے کی بنیاد پرپاک قطر فیملی تکافل میں ملازمت

استفتاء

مفتی صاحب میرا تعلق**** سے ہے۔ ہمارے یہاں ایک انشورنس کمپنی پاک قطر فیملی تکافل کام کر رہی ہے۔ مجھے ایک صاحب ملے جو کہ باریش اور مذہبی قسم کے لگ رہے تھے انہوں نے مجھے اپنے آفس ( پاک قطر فیملی تکافل ) میں بلوایا اور کمپنی کا تعارف کرایا کہ اس کمپنی کی نگرانی مفتی تقی عثمانی صاحب کر رہے ہیں۔ آپ اس میں ملازمت شروع کریں۔ میں نے مفتی ابراہیم صاحب سے مشورہ کیا انہوں نے فریایا کہ آپ اس میں کام کریں یہ شرعا جائز ہے۔ بلکہ بذات خود مفتی صاحب نے ادارہ والوں کے دو تین کیس پاس کروائے اور ٹیلی فون پر  Client سے بات کر کے ان کو کہا کہ آپ ان سے معاملہ کر لیں یہ جائز ہے۔ میں نے صادق آباد مرکز سے ایک مولوی صاحب سے مشورہ کیا تو انہوں نے بھی مثبت میں جواب دیا۔ بالآخر میں نے ملازمت شروع کر دی۔ میرا اور کمپنی والوں کا معاہدہ طے ہو گیا کہ میں اس کمپنی کو نہیں چھوڑوں گا۔ کیونکہ مجھے یقین دہانی کرائی گئی کہ ہم سود کے خلاف جہاد  کر رہے ہیں اور  انشورنس  حلال متبادل پیش کر رہے ہیں۔ کمپنی کےکچھ اصول جو ہمیں بحیثیت ایک ملازم کے بتائے گئے ہیں وہ یہ ہیں:

۱۔ آپ کو اجازت ہے آپ کرتہ، شلوار اور ٹوپی پہنیں۔

۲۔ آپ نے کسی ایسے شخص سے جس کی کمائی حرام ہو پالیسی نہیں لینی۔

۳۔ آپ نے لوگوں کو ترغیب دے کرمطمئن کرنا ہے کہ یہ جائز کام ہے۔

الغرض ہمارے مرکز کے ایک اور مولوی صاحب کو خبر پہنچی کہ میں نے پاک قطر میں ملازمت شروع کر دی ہے تو انہوں نے مجھے سختی سے منع کر دیا ہے۔ ابھی میں نے قولی شکل میں استعفیٰ دے دیا ہے۔ مگر میرے بڑے بھائی نے میری مخالفت کی۔ اور کہا کہ جب تقی عثمانی صاحب جیسے لوگ اور مفتی ابراہیم صاحب اس کو جائز قرار دے رہے ہیں تو اب تبلیغ والے کون  ہیں ان کے فتویٰ کو نہ ماننے والے۔ اس پر مخالفت بہت تیز ہوگئی اور بھائی نے جھگڑا کیا اور میرے والدین کو کہا کہ یہ میری بات نہیں مان رہا۔ آج کے بعد آپ مجھ سے کوئی چیز نہیں مانگیں گے۔ میری معاشی صورتحال درج ذیل ہے:

۱۔ میرے والد صاحب ضعیف ہیں اور معذور ہیں سماع اور بصارت سے۔

۲۔ ہماری کوئی جائیداد نہیں ہے۔

۳۔ ہم دو بھائی ہیں ایک بڑا ہے جو ڈاکٹر ہے اور ایک میں ہوں۔

۴۔ تین بہنیں ہیں دو کی شادی ہوگئی ہے ایک کی رہتی ہے۔ دو تین ماہ بعد شادی ہونی ہے۔

۵۔ بھائی شادی شدہ ہیں اور ان کی توجہ اپنے گھر، بیوی بچوں میں مرکوز ہے۔ بذات خود میرے اوپر قرضہ ہے تقریباایک لاکھ تک میں نے  ایف۔ ایس ۔ سی کےبعد این۔ایف۔ سی ملتان سے اپرنٹس شب کی ہے۔ دو سال ہوگئے ہیں متعلقہ فیلڈ میں کوئی ملازمت نہیں ملی۔ اب اس صورتحال میں میں کیا کروں ؟ بھائی کو کیسے مطمئن کروں گھر والوں کا کیا کروں؟ مرکز والوں کو کیا کہوں؟ اگر بالفرض ملازمت کروں تو لوگوں کو کیا کہوں کہ ملازمت جائز ہے یا نہیں؟ کمپنی کے ساتھ معاملہ کرنا شرعاً جائز ہے؟ مہربانی فرما کر مشورہ دیں۔ میں انشاء اللہ مشورے کا پابند رہوں گا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

آپ نے مذکورہ علماء کے فتوے پر عمل کیا ہے اور کررہے ہیں تو آپ کے لیے یہ دلیل بھی کافی ہے۔ البتہ ہم تکافل کی سکیم سے متفق نہیں۔ اس لیے اگر آپ احتیاط کریں اور کوئی اور کام تلاش کر لیں تو اچھا ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved