• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

   فوت ہونے والے کی امانت کا حکم

استفتاء

میرے بھائی اپنی زندگی میں میرے پاس پیسے بطور امانت رکھوا تے تھے، جب ضرورت پیش آتی تو لے لیتے تھے، اور ساتھ میں یہ بھی کہا تھا کہ اگر آپ کو ضرورت ہو تو خرچ کر سکتے ہو۔ ایک مرتبہ انہوں نے میرے پاس پیسے (80 ہزار) امانت رکھوائے، جو مجھ سے چوری ہو گئے تھے، وہ اس طرح کہ میں گرمی کے وجہ سے چادر باندھ کر سویا ہوا تھا اور شلوار قمیض اتار کر لٹکائے ہوئے تھے، شلوار کی جیب میں میں نے وہ پیسے رکھے ہوئے تھے، اور ساتھ میں اپنے پیسے بھی تھے۔ میری لے پالک بیٹی جیب سے امانت کے اور میرے پیسے نکال کر لے گئی، بعد میں ہم ان کے پیچھے گئے بھی لیکن انہوں نے وہ پیسے واپس نہیں کیے۔ دوسری طرف بھائی کے تقاضے پر میں نے دوسرے لوگوں سے پیسے پکڑ کر بھائی کو بطور تاوان کے ادا کر دیے، جن لوگوں سے میں نے پیسے پکڑے تھے ان کو بعد میں میں نے پیسے لوٹا دیے تھے، کچھ دنوں بعد بھائی نے وہی پیسے (80 ہزار) دوبارہ میرے پاس امانت رکھوائے، جو کہ اب بھی میرے پاس موجود ہیں۔ اب بھائی فوت ہو گئے ہیں، تو میں ان پیسوں کا کیا کروں؟ کیا ان کو صدقہ جاریہ میں خرچ کر سکتا ہوں؟  یا ورثاء میں تقسیم کروں؟

نوٹ: فوت شدہ بھائی  کے بیوی بچے کوئی نہیں، والدین بھی پہلے فوت ہو چکے ہیں، ہم کل 7 بھائی اور 3 بہنیں تھیں، جن میں سے 4 بھائی اور 2 بہنوں کا انتقال ہو چکا ہے۔ سب سے آخر میں مذکور بھائی فوت ہوئے ہیں، باقی سب بہن بھائی ان سے پہلے فوت ہو گئے تھے، ان کی اولاد موجود ہے۔ باقی  3 بھائی ایک  بہن حیات ہیں۔

مذکورہ بہن کے ساتھ ہمارا پیسوں کی واپسی کا تنازعہ چل رہا ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے بیٹے کے ساتھ میری لے پالک بیٹی گھر سے پیسے نکال کر نکل گئی تھی، مذکورہ بہن کے ساتھ پیسوں کی واپسی کا معاملہ چل رہا ہے، وہ کبھی کچھ کہتے ہیں اور کبھی کچھ، پیسے واپس نہیں کر رہے، تو ایسی صورت میں اگر ان کا حصہ بنتا ہو تو ان کو کیوں دیا جائے۔

سائل کا مزید کہنا ہے کہ یہ 80 ہزار روپے بھائی نے مجھے دیے تھے، لہذا یہ میری ملکیت ہے، یہ جو میں اس کو امانت کہہ رہا ہوں یہ اپنے لحاظ سے کہہ رہا ہوں ورنہ بھائی مجھے دے گئے ہیں۔ ایک تو اس لیے کہ بھائی کئی مرتبہ میرے پاس پیسے رکھواتے وقت یہ کہہ چکے تھے کہ ’’اگر آپ کو ضرورت ہو تو خرچ کر سکتے ہو‘‘۔ اور دوسرا یہ کہ یہ پیسے دیتے وقت  بھائی نے کہا تھا کہ ان پیسوں سے جگہ خریدو، زندگی میں میری ہو گی، میرے مرنے کے بعد آپ ہی کی ہے۔ لیکن جگہ خریدنے سے پہلے ہی بھائی فوت ہو گئے۔

سجاد تھانوی                                      بواسطہ واٹس ایپ

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں بھائی کے یہ کہنے سے کہ ’’اگر آپ کو ضرورت ہو تو آپ یہ پیسے خرچ کر سکتے ہو‘‘ یہ پیسے آپ کے نہ ہوں گے کیونکہ ضرورت کے وقت خرچ کر لینے سے یہ پیسے آپ کے ذمے قرض بن جائیں گے اور قرض میں وراثت جاری ہوتی ہے۔ اسی طرح بھائی کے یہ کہنے سے کہ ’’ان پیسوں سے  جگہ خریدو، زندگی میں میری ہو گی میرے مرنے کے بعد آپ کی ہی ہے‘‘ یہ پیسے آپ کے نہ ہو ں گے کیونکہ اول تو آپ نے ان پیسوں سے جگہ نہیں خریدی اور خرید بھی لیتے تو وہ زندگی میں آپ کے بھائی کی ہی ہوتی نہ کہ آپ کی۔ اور بھائی کے مرنے کے بعد آپ  کی اس طرح ہو سکتی تھی کہ بھائی نے آپ کے لیے وصیت کی ہے اور چونکہ آپ خود بھی وارث ہیں اور وارث کے لیے وصیت معتبر نہیں۔

باقی رہی یہ بات کہ بہن کے بیٹے کے ساتھ آپ کی لے پالک بیٹی گھر سے پیسے لے کر نکل گئی تھی تو یہ آپ کی بیٹی اور بہن کے بیٹے کا اپنا فعل ہے، اس وجہ سے آپ بہن کو ان کے شرعی حصہ سے محروم نہیں کر سکتے۔ تاہم بہن اپنا حصہ از خود ان پیسوں کے عوض میں کٹوانا چاہیں تو یہ ان کی مرضی ہے۔

لہذا یہ (80 ہزار) ورثاء میں تقسیم ہوں گے۔ 80 ہزار کو 7 حصوں میں تقسیم کر کے ان میں 2-2  حصے (یعنی22857 روپے  ) ہر بھائی کو اور ایک حصہ (یعنی 11428روپے) بہن کو ملے گا۔ صورت تقسیم یہ ہے:

7                                                             

3 بھائی                                 1بہن

2+2+2                      1

مذکورہ صورت میں چونکہ سائل بھی فوت ہونے والے بھائی کا وارث ہے، لہذا وہ اپنے حصے (یعنی22857روپے ) کو جیسے چاہے،  خود استعمال کرے یا صدقہ میں خرچ کرے ان کو اختیار ہے۔ اور باقی ورثاء اگر اپنا حصہ صدقہ کرنے پر اضی ہوں تو صدقہ میں خرچ کر سکتے ہیں، اسی طرح اگر آپ کو دینے پر راضی  ہوں تو آپ رکھ سکتے ہیں۔ لیکن اگر وہ صدقہ کرنے اور آپ کو دینے پر راضی نہ ہوں تو ان کو ان کا حصہ دینا ضروری ہو گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved