- فتوی نمبر: 9-251
- تاریخ: 20 فروری 2017
- عنوانات: مالی معاملات
استفتاء
اگر ***کا کوئی طالب علم مثلا اکاؤنٹنگ 2 کی تیاری کے لئے فیس جمع کرواتا ہے اور کلاسیں لینا شروع کرتا ہے، بعد میں جب رزلٹ آتا ہے تو وہ اکاؤنٹنگ 1 میں فیل ہو جاتا ہے اور چاہتا ہے کہ اکاؤنٹنگ 2 کے لئے اس نے جو فیس جمع کروائی تھی اسی کے بدلے اسے اکاؤنٹنگ 1 کے امتحان کی تیاری کروا دی جائے ، تو عموما اس کی یہ بات مان لی جاتی ہے۔ لیکن ابتداء میں طالب علم کو یہی بتا یا جاتا ہے کہ فیس واپس بھی نہیں ہو گی اور کسی دوسرے مضمون کی تیاری کے لئے ایڈجسٹ بھی نہیں ہوگی، صرف فریز کرنے کی سہولت ہوگی۔
شروع میں اس لیے نہیں کہا جاتا کہ ہر کلاس میں تعداد محدود ہوتی ہے۔ اگر اس طرح کا قانون نہ بنایا جائے تو طلباء لا پرواہی کریں گے اور بغیر غور و فکر کے داخلہ لے لیں گے۔ بعد میں کسی دوسرے مضمون میں جانے کی کوشش کریں گے۔ اس کا نقصان ادارہ کو یہ ہوتا ہے کہ محدود نشستیں ہونے کی وجہ سے اگر وہ طالب علم ایک کلاس چھوڑے گا تو اس کلاس میں ایک سیٹ خالی رہے گی۔ یہ نقصان ادارے کو اٹھانا پڑے گا۔ اور جس دوسری کلاس میں جانے کا وہ خواہش مند ہوتا ہے وہاں بھی جگہ نہیں ہوتی۔ اس سے اس قانون کے بنانے میں مشکلات پیش آئیں گی۔اس لیے اصول تو نہیں بنایا جاتا لیکن اگر کوئی بعد میں کسی مجبوری کی وجہ سے درخواست دے اور دوسری کلاس میں جگہ بھی ہو تو ایڈجسٹ کر لیا جاتا ہے۔
ابتداء میں یہ کہنا کہ فیس ری فنڈ ہو گی نہ ایڈجسٹ لیکن بعد میں طالب علم کے کہنے پر ایڈجسٹ کرنا شرعاً کیسا ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
ذکر کردہ مشکلات کے پیش نظر صرف کاغذی کارروائی کی حد تک یہ اصول بنانا کہ ”فیس ری فنڈ بھی نہیں ہو گی اور کسی دوسرے مضمون کی تیاری کے لیے ایڈجسٹ بھی نہیں ہو گی صرف فریز کرنے کی سہولت ہو گی” لیکن عملی طور پر جن صورتوں میں فیس واپس کرنا ضروری ہو ان صورتوں میں فیس واپس کرنا یا دوسرے مضمون کی تیاری کے لیے ایڈجسٹ کرنا جائز اور درست ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط واللّٰہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved