• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

فیس فریز کرنا

استفتاء

اگر *** کا کوئی طالب علم  فیس جمع کروا کر کلاسیں لینا شروع کر دے لیکن بعد میں وہ کلاسیں مکمل نہ کرے،  درمیان میں چھوڑ دے، تو اس صورت میں اس کی فیس ری فنڈ نہیں کی جاتی، بلکہ جتنی کلاسیں وہ لیے چکا ہو اس کے بقدر فیس سے کٹوتی کر کے بقیہ فیس فریز کر دی جاتی ہے۔ بقیہ فیس فریز ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ طالب علم  جب چاہے *** میں دوبارہ آکر فریز شدہ فیس کے عوض اپنی بقیہ کلاسوں میں شرکت کر کے امتحانات کی تیاری کر لے۔

طلباء کے درمیان میں چھوڑنے  کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ ایک لیول (کلاس) کے امتحانات دینے کے بعد اگلے امتحانات کی تیاری شروع کر دیتے ہیں اور اس کے لئے فیس جمع کروا کر کلاسیں لینا شروع کر دیتے ہیں۔ مگر بعد میں جب رزلٹ آتا ہے تو بعض طالب علم  سابقہ امتحان  میں پاس نہیں ہوتے۔ ایسے طلباء دوبارہ سابقہ امتحانات کی تیاری میں مصروف ہو جاتے ہیں اور آئندہ امتحانات جن کی فیس جمع کروائی تھی، اس کی کلاسیں نہیں لیتے۔ چونکہ ایسے طالب علم  پہلے ہی امتحان میں فیل ہوئے ہوتے ہیں لہذا ان کے لئے نرم گوشہ رکھا جاتا ہے اور اگر ان کی پہلے سے جمع کروائی گئی فیس ان کی حاصل کردہ کلاسوں سے کم بھی ہو توان سے مزید فیس کا مطالبہ نہیں کیا جاتا۔

کچھ کلاسیں لے کر چھوڑنے والے طالب علم  نے جتنی کلاسوں میں شرکت کر لی ہو اس کے بقدر اس کی فیس میں سے کٹوتی کر کے بقیہ فیس فریز کی جاتی ہے۔ اس کٹوتی کا معیار مختلف اداروں میں مختلف ہوتا ہے۔ *** میں عام طور پر جب طالب علموں کے سابقہ امتحانات کے رزلٹ آتے ہیں تو وہ تقریبا ڈیڑھ ماہ کی کلاسیں لے چکا ہوتا ہے۔ اب اگر وہ چھوڑ کر جاتا ہے تو اس کی فیس میں سے 30%کٹوتی کر کے بقیہ فیس فریز کی جاتی ہے۔ اگر کوئی طالب علم  ایک یا دو ہفتے بعد ہی کلاسوں میں شرکت بند کر دے تو اس کی مکمل فیس فریز کر دی جاتی ہے۔

*** کا طالب علم  اگر کلاسیں درمیان میں چھوڑ کر چلا جائے اور اس کی فیس فریز ہو جائے تو اسے صرف اس بات کا اختیار ہوتا ہے کہ وہ دوبارہ آکر اپنی بقیہ کلاسیں پڑھ لے، اس کی فیس ری فنڈ ّ(واپس) نہیں ہوتی۔ یہ بات طالب علم  کو پہلے ہی بتادی جاتی ہے کہ فیس ری فنڈ نہیں ہو گی۔ *** کی متعلقہ برانچ میں فریز شدہ فیسوں کی ایک معتد بہ مالیت بن جاتی ہے۔

فیس فریز کرنے کی وجوہات

.i  ***میں فیس فریز کرنے کی ایک وجہ یہ ہوتی ہے کہ اکثراوقات طالب علم  مکمل طور پر چھوڑ کر نہیں جا رہا ہوتا، بلکہ وہ سابقہ امتحانات پاس کرنے کے بعد دوبارہ اگلے امتحانات کی تیاری کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس لئے اس کی فیس کو فریز کر دیا جاتا ہے تاکہ دوبارہ لین دین کے مسائل پیش نہ آئیں۔

.ii فیس ری فنڈ نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ اگر ایک یا دو طالب علموں کی فیس واپس کی جائے تو وہ دوسروں کو بھی بتائیں گے اوردوسرے بھی  فیس واپس لینے آجائیں گے۔ حالانکہ ان میں سے بہت سے ایسے ہوں گے جنہوں نے دوبارہ آگے پڑھنا ہے۔ مگر وہ***سے  فیس لے کر خود استعمال کر لیں گے اور بعد میں اپنے گھر والوں سے دوبارہ فیس مانگیں گے تو گھر والوں  کے لئے تنگی ہو گی۔

.iiiفیس فریز کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ بعض اوقات طالب علم  اپنے گھر والوں کو نہیں بتاتے کہ انہوں نے پڑھنا چھوڑ دیا ہے اور حقیقت میں وہ پڑھائی چھوڑ دیتے ہیں اور فیس کی رقم خود استعمال کر لیتے ہیں۔ ان کے اس عمل کو روکنے کے لئے بھی فیس کو فریز کر دیا جاتا ہے تاکہ وہ فیس کو والدین سے پوشیدہ رکھ کر استعمال نہ کر سکیں۔

ان وجوہات کی بنا پر ری فنڈ کے بارے میں سخت اصول بنایا گیا ہے اور فیس کو فریز کر دیا جاتا ہے۔ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کورس کروانے والے تمام اداروں میں یہی (عرف) ہے کہ فیس فریز کر دی جاتی ہے ری فنڈ نہیں کی جاتی۔

خاص صورتوں میں فیس ری فنڈ کرنا

***کا عمومی ضابطہ تو یہی ہے کہ فیس ری فنڈ نہیں کی جائے گی، لیکن خاص صورتوں میں اگر کوئی طالب علم  دوبارہ آنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو اور خود آکر کلیم کرے کہ میری فیس واپس کر دی جائے تو بعض اوقات صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے فیس واپس بھی کر دی جاتی ہے۔ مثلا حال ہی میں ایک طالب علم  نے پڑھائی شروع کی تو اس کے والد صاحب کا انتقال ہو گیا اور اس کی تقرری اپنے والد کی جگہ ہو گئی۔ اس واقعہ کی تحقیق کر کے طالب علم  کی فیس ری فنڈ کر دی گئی تھی۔ لیکن ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ کوئی فیس واپسی کا مطالبہ کرے۔ فیس واپسی کا مطالبہ کرنے والے طالب علم  شاید ایک فیصد ہی ہوں گے۔ اس سلسلے میں بعض اوقات طالب علم  کے گھر فون کر کے بھی معلوم کر لیا جاتا ہے کہ وہ گھر والوں کو بتا کر چھوڑ رہا ہے یا نہیں۔

***کی جس برانچ میں طالب علم  تعلیم حاصل کر رہا ہو اس کی فیس اسی برانچ سے ری فنڈ یا ان فریز (Unfreeze)ہوتی ہے، کسی دوسری برانچ یا ہیڈ آفس سے نہیں ہو سکتی۔

1۔          مذکورہ بالا وجوہات کی بناء پر کیا رائز سکول کے لیے فیسوں کو فریز کرنا شرعاً درست ہے۔

2۔          اگر طالب علم دوبارہ فیس لینے نہ آئے تو جمع شدہ رقم کا کیا کرنا چاہئے؟

تنقیح: اگر کوئی طالب علم بغیر کسی وجہ کے کورس درمیان میں چھوڑ کر بالکلیہ چلا جائے یعنی نہ دوبارہ کلاس لینے آئے اور نہ ہی وہ کلیم کرے تو ایسی صورت میں اس کی فریز کی ہوئی رقم کا ***کیا کرتی ہے؟ عام معاملات کی طرح ہی استعمال ہوتی ہے۔

جواب تنقیح: اگر کوئی بچہ کالج چھوڑ کر چلا جائے اور فیس بھی فریز نہ کروائے تو ایسی صورت میں اس کی فیس عام معاملات کی طرح ہی استعمال ہوتی ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مسؤلہ صورت میں **** اور طلباء کے درمیان معاہدہ کی شرعی حیثیت ”عقد اجارہ” کی ہے، اور عقد اجارہ میں جب فریقین کسی خاص مدت پر اتفاق کر لیں تو پھر ان میں سے کسی کو بھی باہمی رضا مندی اور بغیر عذر کے وقت سے پہلے عقد ختم کرنے کا اختیار نہیں ہوتا۔

لہٰذا*** میں اگر کوئی طالب علم داخلہ لینے اور پڑھائی شروع ہونے کے بعد بغیر کسی معقول عذر کے پڑھائی چھوڑ کر کلاس میں شرکت کرنے نہ آئے تو اس کے نہ آنے کی وجہ سے وہ سابقہ عقد ختم نہیں ہو گا بلکہ وہ بدستور برقرار رہے گا، یہاں تک کہ وہ طے شدہ مدت پوری ہو جائے تو مدت پوری ہونے کے بعد اسکول کے ذمہ شرعاً لازم نہیں کہ وہ ایسے طالب علم کو بقایا فیس  ری فنڈ کرے یا آئندہ کلاس لینے کے لیے اس کی فیس فریز کرے، بلکہ وہ فیس اسکول کی ملکیت ہے، جس کو اپنے اخراجات میں خرچ کرنے کی شرعاً اجازت ہے۔

البتہ اگر کوئی طالب علم پڑھائی شروع ہونے سے پہلے باہمی رضا مندی یا کسی معقول عذر کی وجہ سے معاہدہ ختم کرنا چاہئے، تو اس کی اجازت ہے، ایسی صورت میں وہ سابقہ عقد ختم شمار ہو گا، اور اُس طالب علم کو بقایا فیس واپس کرنا شرعاً لازم ہے، جب کہ طالب علم کی رضا مندی کے بغیر اسے فریز کرنا بھی درست نہیں۔

نوٹ: عذر کی وجہ سے فیس ری فنڈنگ کی اطلاع طالب علم  کے والدین کو بھی دی جائے، تاکہ بعد میں اُن کو کسی پریشانی کا سامنا نہ ہو۔

لما في فقه الإسلامی و أدلته (٥/٣٨٣٠) مکتبه حقانیه:

تفسخ الإجارة بالأعذار عند الحنفیة، لأن الحاجة تدعوا إلی الفسح عند العذر، لأنه لو لزم العقد عند تحقق العذر للزم صاحب العذر ضرر لم یلتزمه بالعقد.

بدائع: (٤/٩٢) دار احیاء التراث العربي:

ومنها انقضاء المدة لا لعذر؛ لأن الثابت إلی غایة ینتهی عند وجود الغایة فتنفسخ الجارة بانتهاء المدة، لا إذا کان ثمة عذر بأن انقضت المدة.

لما في بدائع (٤/٦٣) در احیاء التراث العربی:

و ملک الآجر البدل حتی تجوز له هبته والتصدق به والإبراء عنه والشراء والرهن والکفالة وکل تصرف یملک البائع في البیاعات۔

لما في بدائع: (٤/٥٨) مکتبه دار الاحیاء التراث العربی:

(فصل في صفة الإجارة) (فصل) وأما صفة الإجارة فالإجارة عقد لازم إذا وقعت صحیحة عریة عن خیار الشرط والعیب والرؤیة عند عامة العلماء، فلا تفسخ من غیر عذر وقال شریح: إنها غیر لازمة وتفسخ بلا عذر؛ لأنها إباحة المنفعة فأشبهت العارة، ولنا أنها تملیک المنفعة بعوض فأشبهت البیع وقال – سبحانه وتعالی:  (أوفوا بالعقود) (المائدة: 1) والفسخ لیس من الإیفاء بالعقد وقال عمر: – رضی الله عنه – ” البیع صفقة أو خیار ” جعل البیع نوعین: نوعا لا خیار فیه، ونوعا فیه خیار، والإجارة بیع فیجب أن تکون نوعین، نوعا لیس فیه خیار الفسخ، ونوعا فیه خیار الفسخ؛ ولأنها معاوضة عقدت مطلقة فلا ینفرد أحد العاقدین فیها بالفسخ إلا عند العجز عن المضي في موجب العقد من غیر تحمل ضرر کالبیع………………. فقط و الله تعالى اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved