- فتوی نمبر: 3-272
- تاریخ: 17 اگست 2010
- عنوانات: مالی معاملات
استفتاء
میں جو کام کرنا چاہتا ہوں اس کی تفصیل درج ذیل ہیں۔ برائے مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ بیان فرما دیں کہ یہ کام کرنا جائز ہے یا نہیں؟
- اس کام کا نام Online fotore Trading ہے۔
- یہ ٹریڈنگ ڈالر، پاؤنڈ، یورو، سونا، چاندی، تامبہ، کروڈ آئل اور امریکن سٹاکس میں ہوتی ہے۔
- اس کام کا تعلق امریکن مارکیٹ سے ہے نہ کہ پاکستانی مارکیٹ سے۔
- یہ کام کیا بھی ڈائیرکٹ امریکہ کے ساتھ جاتا ہے۔
- یہاں مختلف کمپنیز ہیں جو امریکن کمپنیز کی ایجنٹ ہیں جن میں Multivalve اور Harrvest Group سر فہرست ہیں۔
- یہ کمپنیز امریکہ کو Premium ادا کرتی ہیں اور یہاں Clients سے فکسڈ کمیشن وصول کرتی ہیں۔ خواہ Clients کو نفع ہو یا نقصان۔
- یہاں کام کی شروات کرنے کے لیے $10000 یا زائد رقم سے اکاؤنٹ کھولا جاتا ہے اور یہ اکاؤنٹ پاکستان میں موجود ایجنٹ کے پاس کھولا جاتا ہے۔
- اکاؤنٹ کھولنے کے بعد کمپنی ایک سوفٹ ویئر دیتی ہے جو انٹرنیٹ کی مدد سے چلتا ہے اوراس میں پہلے بتائی ہوئی اشیاء کے براہ راست ریٹ پوائنٹس کی صورت میں آتے ہیں۔
- ایک پوائنٹ کی قیمت $100 ہوتی ہے۔
- اس میں مثلاً ہم سونے کی ایک Lot خریدتے ہیں۔ جس کی مالیت تو بہت زیادہ ہوتی ہے، لیکن ہم سرف بیعانہ ادا کرکے خرید لیتے ہیں لیکن وہ ہماری ملکیت میں ہیں ہوتی، اور جب پوائنٹس کم ہوتے ہیں تو ہمارے اکاؤنٹ میں سے خود بخود پیسے کم ہوتےرہتے ہیں اور اگر اکاؤنٹ کے سارے پیسے ختم ہوجائیں تو اکاؤنٹ ختم ہو جاتا ہے اور ہمارے ہاتھ میں خریدی ہوئی چیز بھی نہیں ہوتی۔
- اصل مسئلہ یہ ہے کہ جو چیز ہم خریدتے ہیں وہ اکاؤنٹ کے پیسے ختم ہونے کے بعد موجود نہیں ہوتی۔ جو چیز ہم نے خریدی ہے وہ ریٹ کم ہونے کی صورت میں ہمارے پاس موجود تو ہونی چاہیے خواہ وہ نقصان میں فروخت ہو۔ لیکن اس کام میں ہمارے پاس خریدی ہوئی چیز کا قبضہ نہیں ہوتا۔
- یا پھر اگر ریٹ کم ہوتا ہے اور نقصان کی صورت میں اصولاً ہمارا ادا کیا ہو بیعانہ ختم ہونا چاہیے لیکن یہاں ہمارے اکاؤنٹ میں موجود تمام رقم ہی ختم ہو جاتی ہے۔
جناب عالی کیا یہ کام کرنا جائز ہے یا نہیں۔ اگر ہے تو کس صورت میں اور اگر نہیں تو کس صورت میں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
اول تو یہ کمپنیاں کسی حقیقی سرمائے کی بنیاد پر کاروبار نہیں کرتیں بلکہ ان کا دارومدار محض کاغذی کارائی تک محدود ہوتا ہے۔ اور ایسے کاروبار کی شریعت میں قطعاً گنجائش نہیں۔
اور اگر یہ کسی حقیقی سرمائے کی بنیاد پر بھی کاروبار کریں تب بھی ان کے طریقہ کار میں بہت ساری شرعی خرابیاں ہوتی ہیں جن کی وجہ سے یہ کاروبار جائز نہیں۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو کتاب: فقہی مضامین باب 37، از مفتی عبدالواحد صاحب، مطبوعہ مجلس نشریات اسلام کراچی۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved