- فتوی نمبر: 11-287
- تاریخ: 26 جولائی 2018
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
تجارت کے بارے میں چند سوالات ہیں جن کے جوابات ارشاد فرمادیں:
1۔فاریکس ٹریڈنگ انٹر نیشنل کرنسی ایکسچینج کا کام ہے ۔کیا یہ اسلام میں ایسی ٹریڈنگ کرنا حلال ہے یا حرام ہے ؟
2۔کسی فارن کمپنی کے ساتھ کرنسی کی ایکسچینج کا کاروبار کرنا جائز ہے یا ناجائز ؟
3۔ڈالر یا یورو یا درہم یا دینا ر کو خریدنا اور بیچنا انٹر نیٹ پر 0nlineجائز ہے یا ناجائز؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔اسلام میں کسی بھی چیز کی خرید وفروخت اور تجارت کے حلال ہونے کے لیے کچھ اصول اور قواعد مقرر کیے گئے ہیں، چنانچہ جہاں ان اصول و قواعد پرعمل نہ کیا جارہا ہو تو اسلام ان صورتوں کو جائز نہیں قرار دیتا ۔ آج کل انٹر نیٹ پر فاریکس اور کرنسیوں کی جو خریدوفروخت ہو رہی ہے ان میں عام طورسے شریعت کے اصولوں کی رعایت نہیں کی جاتی۔مثلا:
ا ۔کرنسی کی خریدوفروخت میں شریعت کا ایک بڑا اصول یہ ہے کہ کرنسی اگر مختلف ممالک کی ہوتو کم از کم کسی ایک کرنسی پرمجلس عقدمیں مکمل قبضہ ہو ،جبکہ انٹرنیٹ پر فاریکس اورکرنسیوں کی خریدوفروخت میں کسی ایک کرنسی پر بھی مجلس عقد میں مکمل قبضہ نہیںہوتا ۔ کیونکہ سودا کرتے وقت مڈل مین کمپنی اپنے پاس جمع شدہ رقم میں سے کچھ رقم (مثلا:2ہزار )ادا کرتی ہے جبکہ سودا پوری رقم کے عوض ہوتا ہے یعنی ایک طرف سیتوقبضہ بالکل بھی نہیں ہوتا اور دوسری طرف سے جزوی رقم پر قبضہ ہوتا ہے پوری پر نہیں ہوتا۔
ب۔سودا ہونے کے بعد جتنے دن گزر تے جائیں تو کمپنی فی دن کے حساب سے کچھ رقم خریدار سے وصول کرتی ہے جو سود کے زمرے میں آتی ہے ۔ اس طرح کے معاملات میں حقیقی تجارت مقصود نہیں ہوتی بلکہ اصل مقصودمتعدد سودے کرکے آخر میں درمیانی فرق کو برابر کرنا ہوتا ہے،گویا بیع وشراء حقیقی نہیں بلکہ فرضی ہوتی ہے۔لہذا فاریکس ٹریڈنگ کاکام شرعا جائز نہیں ۔
3،2۔اس سے مراد اگر تو فاریکس ٹریڈنگ ہے تو اس کا جواب اوپر آچکا ہے اور اگر اس سے ہٹ کر کوئی صورت ہے تو اس کی تفصیلات سامنے آنے کے بعد ہی کچھ کہاجاسکتا ہے
© Copyright 2024, All Rights Reserved