- فتوی نمبر: 23-202
- تاریخ: 30 اپریل 2024
- عنوانات: مالی معاملات > منتقل شدہ فی مالی معاملات
استفتاء
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اور مفتیان دین اس مسئلے کے بارے میں:
صورت حال اور حقائق
- میرے شوہر، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں۔ انہوں نے ایک آڈٹ فرم میں اور اس کے سابقہ ادارے میں تین دہائی کام کیا ہے۔ اس میں سے آخری آٹھ سال افغانستان کے جنگ زدہ علاقہ میں رہ کر سربراہ کی ذمہ داری سنبھالی ہے۔
- جس آڈٹ فرم سے وہ وابستہ رہے ہیں وہ پاکستان کی ایک معروف اکاؤنٹینسی اور آڈیٹنگ فرم ہے۔ یہ پارٹنرز شپ فرم ہے اور پاکستان کے قانون شراکت ۱۹۳۲ء کے تحت ایک رجسٹرڈ فرم ہے۔ ایک معاہدہ کے تحت ایک بین الاقوامی فرم کے برانڈ اور لوگوں کے ساتھ کام کررہی ہے۔
- فرم کے معاہدہ شراکت، معاہدہ منفعت بعد از ریٹائرمنٹ، ریٹائرمنٹ ڈیڈ، جیسے تمام قانونی دستاویز کی رو سے اور فرم کی جانب سے جاری شدہ پنشن لیٹر کے مطابق میرے شوہر کو ریٹائرمنٹ کے بعد، معاہدہ منفعت اور از ریٹائرمنٹ کے دیے گئے حسابی فارمولے کے مطابق دس سال تک پنشن ملتی ہے۔ یہ مدت یکم جولائی ۲۰۱۸ء سے ۲۰۲۸ء تک کی ہے۔
- فرم کی پالیسی کے مطابق، فرم کے تمام پارٹنرز سے ان کے سالانہ کل منافع کی تقسیم سے پہلے:
(الف) پنشن کی مد میں ایک رقم مختص کرکے منہا بھی کی جاتی تھی اس کے علاوہ
(ب) اسی منافع سے ریٹائرڈ پارٹنرز کو بھی پنشن کے نام سے رقم دی جاتی تھی۔ یعنی ان دو رقومات کی کٹوتی کے بعد منافع تقسیم ہوتا تھا۔
- میرے شوہر کو یکم جولائی ۲۰۱۸ء سے جنوری ۲۰۱۹(سات ماہ) تک میں قانونی دستاویزات اور پنشن لیٹر کے مطابق پنشن دی گئی۔ مگر جنوری ۲۰۱۹ میں قیادت نے ریٹائر ڈپارٹنرز کو بلا کر یہ اطلاع دی کہ وہ گزشتہ کل ہی دبئی میں ریجنل قیادت سے ملاقات کرکے آئے ہیں اور چند خطرناک وجوہات اور معاملات کی بنا پر یہ فرم بین الاقوامی فرم کا لوگو Brand/Logo برقرار نہیں رکھ سکے گی، جس کے باعث فرم کا سالانہ منافع کم ہوجائے گا اور اس بات کا بھی خطرہ ہے کہ فرم برقرار نہ رہ سکے، نتیجتاً فرم کے موجودہ پارٹنرز کے لیے ممکن نہیں ہوگا کہ وہ ریٹائر ڈپارٹنرز کی قانونی پنشن کے مکمل واجبات ادا کر سکیں۔
- چونکہ فرم کے ریٹائرڈ پارٹنرز اس بات سے خوفزدہ ہوئے کہ بین الاقوامی لوگو یا برانڈ کے جانے کے بعد فرم کا منافع کم ہوجائے گا یا فرم ختم ہوجائے گی، چند روز کی گفتگو کے بعد گیارہ (۱۱) میں سے ۱۰ پارٹنرز نے قیادت کے اس بیان کو سچ سمجھتے ہوئے اور اس کے اس بیان کو حقیقت سمجھتے ہوئے کہ چونکہ بین الاقوامی برانڈ اور لوگو جا رہا ہے اور اس کے بعد ایسے حالات ہوجائیں گے کہ وہ اس پنشن کی مد میں کچھ بھی وصول نہیں کر سکیں گے، اپنی بقایا پنشن کے چالیس فیصد رقم کی وصولی پر ادارے سے معاہدہ کر لیا، اس انداز سے وہ تمام دس کے دس افراد جن میں ایک پارٹنر کی بیوہ بھی شامل تھی، اپنی بقیہ ساٹھ فیصد پنشن جوکہ کئی کڑور روپے بنتی تھی، اس سے محروم ہوگئے۔
- جبکہ میرے شوہر نے قیادت سے کہا کہ آپ ہمیں تحریری طور پر بتائیں کہ بین الاقوامی فرم اور مقامی فرم کا معاہدہ ختم ہو رہا ہے۔ جس پر قیادت نے اس مطالبہ کو تحریری طور پر دینے سے انکار کر دیا۔ جس کی بنیاد پر میرے شوہر نے چالیس فیصد کے فارمولے پر رضامندی سے انکار کر دیا اور مطالبہ کیا کہ انہیں، قانونی دستاویزات، معاہدہ ریٹائرمنٹ اور پنشن لیٹر کے مطابق پنشن ادا کی جائے۔
- اسی ہفتے میں میرے شوہر کے پاس دو حاضر سروس پارٹنرز بھیجے گئے کہ میرے شوہر بھی دوسروں کی طرح ساٹھ فیصد کی کمی کو تسلیم کر لیں اور وہ چالیس فیصد رقم پر آمادہ ہوجائیں۔ اس وقت میرے شوہر نے پوچھا کہ کیا بین الاقوامی فرم، مقامی فرم کو چھوڑ کر جارہی ہے تو اس وقت وہ دونوں مسکرائے اور کہا کہ آپ دل بڑا کریں۔
- اس کے بعد میرے شوہرکے پاس ریٹائر ڈپارٹنر کو بھیجا گیا کہ میرے شوہر کو منوایا جائے اور پیغام یہ تھا کہ: میرے شوہر اس کمی کو قبول کر لیں، جو کہ دوسروں نے کی ہے، ورنہ وہ اس سے بھی محروم رہیں گے اور اگر میرے شوہر نے قانونی کاروائی تو بیس سال گزر جائیں گے۔ میرے شوہر نے پیغام لانے والے معزز پارٹنر کو بتایا کہ اس کا فیصلہ اس بات پر ہوگا کہ بین الاقوامی فرم جارہی ہے یا نہیں۔ جس پر ان معزز مہمان نے میرے شوہر سے کہا کہ تمہیں یقین نہیں ہے کہ بین الاقوامی فرم جا رہی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ انہوں نے بھی اس خبر پر یقین کے بعد معاہدہ کیا تھا کہ بین الاقوامی فرم جارہی ہے۔
- اس کے بعد اس خبر کو چلانے کی مہم کے سربراہ جو کہ فرم کے سربراہ بھی ہیں، انہوں نے میرے شوہر کو فون پر تبایا کہ وہ اس (چالیس فیصد) کے معاہدہ کو قبول کر لیں ورنہ بین الاقوامی فرم اور ان کے لوگو اور برانڈ کے جانے کے بعد اس بات کے بھی امکانات ہیں کہ وہ فرم میں نہ رہیں اور دیگر پارٹنرز بھی فرم چھوڑ کر چلے جائیں، جس کے باعث میرے شوہر بقیہ چالیس فیصد رقم سے بھی محروم رہ جائیں گے۔ انہوں نے یہ بھی تجویز دی کہ وہ یہ رقم لے کر بحریہ ٹاؤن میں لگا دیں جن سے ان کو بہت فائدہ ہوگا۔ وہ میرے شوہر کو یہ یقین دلاتے رہے کہ فرم تباہی کے دہانے پر ہے اور جو مل رہا ہے اسے لے لیا جائے ورنہ اس سے بھی محروم رہیں گے۔
- مارچ۲۰۱۹ء کی پنشن کی ادائیگی میں تاخیر ہوئی اور جب میرے شوہر نے ادارے کے سربراہ کو بتایا کہ انہیں اس مہینے کی پنشن نہیں ملی تو انہوں نے بتایا کہ انہیں میرے شوہر کی پنشن کی ادائیگی کا پارٹنرز کی جانب سے اپروول(Approval) نہیں ہے۔ (حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک قانونی ادائیگی ہے اور اس کے لیے الگ سے اپروول نہیں لینی پڑتی) جس پر میرے شوہر نے کہا کہ وہ اپروول کے اس معاملے کو تحریری طور پر دیں جس پر بھی سربراہ نے انکار کر دیا۔
- جب میرے شوہر نے ریجنل سربراہ(مشرق وسطی اور شمالی افریقہ) کو ای میل کی تو مارچ اور اپریل ۲۰۱۹ء کی پنشن فوری طور پر مل گئی۔ جس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ اس پورے معاملہ میں ریجن بھی براہ راست شریک تھا اور وہ ان معاملات پر اثر اندازی بھی رکھتا تھا۔
- اندرونی کہانی یہ بتائی جاتی ہے کہ مقامی فرم اور ریجنل آفس(مشرق وسطی اور شمالی افریقہ) مشترکہ طور پر اس مشن پر کام کررہے تھے تاکہ ان واجبات سے جان چھوٹ جائے۔ بتایا گیا ہے کہ اس پلان میں ریجن اور مقامی قیادت کی ٹیم کے افراد شریک تھے۔
- ریجنل آفس نے اور مقامی فرم نے مل کر یہ خوف کی صورت حال پیدا کی جس کے باعث مقامی فرم کے اوپر سے پنشن کے کرووڑوں روپے کے واجبات اس غلط بیانی، جھوٹ اور دھوکہ دہی کے ذریعے بچ گئے۔
- جب فرم کے دیگر موجودہ پارٹنرز سے پوچھا جاتا تھا تو وہ اشارات دیتے تھے کہ اس معاملہ میں خاموش رہیں۔ کوئی بھی اس بات کی تصدیق نہیں کر رہا تھا کہ واقعی بین الاقوامی برانڈ جا رہا ہے یا نہیں۔
- صورتحال یہ کہ اس واقعہ کو فروری ۲۰۲۱ء میں دو سال سے زائد کا عرصہ ہوگیا ہے اور ابھی تک مقامی فرم اور بین الاقوامی فرم اسی معاہدے کے تحت چل رہی ہیں، نہ بین الاقوامی فرم گئی اور نہ ہی مقامی فرم تنہا رہی۔ معلومات کے مطابق مقامی فرم اور ریجنل آفس کا تعلق اور گٹھ جوڑ بڑھ گیا ہے جوکہ بین الاقوامی ویب سائٹ کے پاکستان کی لوکیشن کو دیکھنے سے واضح ہوتا ہے۔ درحقیقت انہوں نے اس حرکت کے باعث ضعیف اور ریٹائرڈ پارٹنرز کی زندگی بھر کی کمائی کو چھین لیا۔
- میرے شوہر کی پنشن روک دی گئی ہے۔ اور انہیں پیغام دیاجا رہا ہے کہ وہ بھی ساٹھ فیصد کٹوتی کو قبول کر لیں۔ جوکہ کروڑوں روپوں کی ہے۔ جب کہ میرے شوہر نے اس سلسلے میں عدالت سے رجوع کیا ہے۔
- میرے شوہر نے اس معاملہ میں ریجن ایریا اور بین الاقوامی قیادت کو بھی ای میل کی اور جب ان کی جانب سے کاروائی نہیں ہوئی تو لنکڈان پر بین الاقوامی فرم کے سربراہ کی پوسٹ پر جب اس سلسلہ میں درخواست کی گئی تو لوکل فرم نے میرے شوہر کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ کر دیا اور دو سو کروڑ روپے کے ہرجانے کا کیس فائل کر دیا۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ انسان کے سر پر ہتھوڑی بھی ماریں اور اسے چیخنے بھی نہ دیں، بلکہ اس بین الاقوامی فرم کے پارٹنرز کی اخلاقیات تو یہ ہیں کہ وہ انسانوں کو دبانے کے لیے یہاں تک جاتے ہیں۔
سوالات۔ استفتاء
- دو سال سے زائد عرصہ ہو گیا، نہ بین الاقوامی فرم گئی اور نہ ہی مقامی فرم تنہا رہی۔ فرم کے شرکا کا اس انداز سے لوگوں کو ان کی حقوق سے محروم کرنا شرعی طور سے کس غیر اخلاقی دائرے میں آتا ہے۔ کیا یہ جھوٹ، غلط بیانی یادھوکہ دہی کے دائرے میں آتا ہے، اس سلسلے میں دینی لحاظ سے کیا وعیدیں ہیں۔ جو لوگ اس مجرمانہ حرکت کے مرکتب ہوئے ہیں اور خبریں پھیلانے میں براہ راست یا بالواسطہ شریک ہوئے ہیں۔ ان کے لیے آخرت کے نقطہ نظر سے کیا وعیدیں ہیں۔
- میرے شوہر اس بات کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ صورتحال پہلے کی طرح ہے، بین الاقوامی فرم کی ساتھ معاہدہ برقرار ہے اور کوئی نقصان پہنچانے والا واقعہ اثر انداز نہیں ہوا ہے، لہٰذا ان کو قانونی دستاویزات اور معاہدہ کے مطابق ہی واجب الاداء رقم دی جائے۔ کیا وہ اپنے مطالبہ میں حق بجانب ہیں؟
- کیا میرے شوہر کو یہ حق ہے کہ وہ جھوٹ کو جھوٹ کہہ سکیں اور متعلقہ افراد اور معاشرہ کے افراد کو آگاہ کر سکیں۔ کیا کسی کے جھوٹ، غلط بیانی اور دھوکہ بازی سے عوام الناس کو آگاہ کرنا غیبت یا عزت پر حملے کی تعریف میں آتا ہے؟
- اگر موجود پارٹنرز جو کہ جھوٹ، غلط بیانی اور دھوکہ دہی کے مرتکب ہوئے ہیں انہیں خوف خدا آجائے اور اپنے کیے پر ملامت ہوتو پھر انہیں کیا کرنا ہوگا؟
- دو پارٹنرز جنہوں نے جھوٹ، فریب اور دھوکہ دہی کی تحقیق کئے بغیر اپنے پارٹنرز کی زبان پر یقین کر لیا اور ان کے اس بیانیہ پر یقین کرکے معاہدہ کر لیا اور اپنی ساٹھ فیصد رقم گنوا بیٹھے اور تحریری طور پر کہہ دیا ہے کہ کسی پیچیدگی کی صورت میں عدالت میں نہیں جائیں گے بلکہ دوستانہ ماحول میں اس معاملہ کو سلجھائیں گے، ان کے کیا حقوق ہیں؟ کیا وہ شرعی طور پر کچھ کر سکتے ہیں؟
- آڈٹ فرم مختلف اداروں کا آڈٹ کرتی ہے اور اپنی رپورٹ میں مالیاتی امور کے بارے میں گواہی دیتی ہے اور تصدیق کرتی ہے۔ یعنی شہادت دیتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سارے سرٹیفکیٹ جاری کئے جاتے ہیں۔ جو کہ تصدیق نامے او رشہادت کی تعریف میں آتے ہیں، کیا ایسی صورت میں جہاں وہ غلط بیانی، جھوٹ اور دھوکہ دہی اور ظلم کے مرتکب ہوئے ہوں، کیا ان کی آڈٹ رپورٹ قابل اعتماد ہوگی اور کیا ایسے ادارے کو آڈٹ کے لیے آڈیٹرز مقرر کیا جاسکتا ہے؟ اور کیا ان سے کوئی مالیاتی یا کاروباری معاملہ کیا جاسکتا ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
جھوٹ بولنابڑا گناہ اور جھوٹ کے ذریعے لوگوں کے مال ہتھیانا بھی بڑا گناہ ہے۔ ایسی لوگ ظالم ہیں اور ظلم کے خلاف فریاد کرنا بھی مظلوم کا حق ہے۔ یہ باتیں ہر ایک جانتا ہے، اس کے لیے کسی فتوی کی ضرورت نہیں ہے۔
اصل سوال یہ ہے کہ کسی خاص معاملے میں کوئی ایک فریق اس ظلم و جھوٹ کا مرتکب ہوا ہے یا نہیں؟ اس بات کا فیصلہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک فریقین کے اپنے حلفی بیانات اور تمام شواہد و تفصیلات سامنے نہ آجائیں، جبکہ ایسے معاملے میں ہمارے پاس اتنے نہیں کہ ہم یہ کام کما حقہ کر سکیں لہٰذا ہم اس سلسلے میں کچھ کہنے سے معذور ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved