• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

فوتگی والے گھر کے انتظامات کرنے پر اجرت لینا

استفتاء

کیا فرماتے ہیں فقہاء اس مسئلہ کی شرعی حیثیت کے بارے میں کہ Funeral Management( جس گھر میں فوتگی ہو اس کے سارے انتظامات دیکھنا ) باہر کے ممالک میں یہ کام با قاعدہ کمپنی یا این جی اوز کرتی ہیں جس میں ہر طرح کی سہولیات میسر کی جاتی ہیں جیسا کہ کفن دفن ، قبر و غیره اور اس کے متعلق تمام سہولیات ۔اس میں گھر یا گھر والوں کے رشتے دار شامل نہیں ہوتے یہ سارا کام پرائیویٹ کمپنی یا این جی اوز کرتی ہیں اور وہ اس کام کےعوض پیسے وصول کرتے ہیں ۔کیاگھر والوں کے ساتھ معاملات طے کرنے کے بعد بطور بزنس یہ کام کر سکتے ہیں ؟اگر گنجائش ہے تو کس حد تک ہے ؟اس کام کی شرعی حیثیت کیا  ہے؟اور اس میں کام کرنا کیسا ہے ؟

تنقیح:1۔ میں نے ابھی یہ کام شروع نہیں کیا اس لئے کوئی تحریر یا ایگریمنٹ نہیں ہے بس آپ یہ سمجھیں کہ تمام تر ممکنہ ذمہ داریاں اس میں شامل ہوں گی۔

2۔ سائل نے یہ کام  بیرون ممالک میں دیکھا ہے اور اب پاکستان میں یہ کام شروع کرنا چاہتا ہے نیز بیرون ممالک کے علماء اس کام کے بارے میں کیا فتویٰ دیتے ہیں یہ سائل کے علم میں نہیں ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ کاروبار کرنا جائز ہے۔

توجیہ: مذکورہ کاروبار کی شرعی حیثیت  اجارے کی ہے جس میں منتظم میت کے گھر والوں کو سہولیات فراہم کرتا ہے اور اس کے عوض اجرت وصول کرتا ہےنیز اگر چہ مذکورہ معاملہ میں کفن وغیرہ کی بیع بھی موجود ہے لیکن چونکہ وہ ضمناً ہے اس لیے اس سے عقد فاسد نہ ہوگا ۔

در مختار (2/ 199)میں ہے:

«(والأفضل أن يغسل) الميت (مجانا، فإن ابتغى الغاسل الأجر جاز إن كان ثمة غيره وإلا لا) لتعينه عليه، وينبغي أن يكون حكم الحمال والحفار كذلك»

احسن الفتاویٰ (4/229) میں ہے:

سوال : مردہ کو نہلانے اور دفن کرنے والوں کو اجرت دینا جائز ہے یا نہیں ؟ بینوا توجروا

الجواب :جائز ہے، البتہ اگر دوسرا کوئی نہ ہو تو چونکہ اسی فرد واحد پر غسل دینا اور دفن کرنا فرض عین ہے اس لئے اجرت جائز نہیں ۔

 قال فى شرح التنوير والافضل ان يغسل الميت مجانا ، فان ابتغى الغاسل الاجرة جاز ان كان ثمة غيره والا لا لتعينه عليه، وينبغي أن يكون حكم العمال والحفار كذلك، سراج ردالمحتار ص 3/138) فقط والله تعالى اعلم ،

امداد الفتاویٰ (3/63) میں ہے:

سوال (۱۶۷۶) : نہی عن صفقۃٍ في صفقۃ کے ظاہری معنی کے لحاظ سے بعض امور ناجائز معلوم ہوتے ہیں حالانکہ بکثرت خاص و عام میں شائع ہیں مثلاً گھڑی کی مرمت کہ ٹوٹے ہوئے پرزے کو نکال کر صحیح پرزہ لگا دے گا تو اس پرزہ کی توبیع ہے اور لگانے کا اجارہ۔(۲)  چار پائی بنوانا، اور بان اپنے پاس سے نہ دینا اس میں بان کی بیع ہے، اور بننے کا اجارہ ۔(۳)  سقّہ سے پانی لینا کہ جب اس نے کنوئیں سے پانی نکال کر اپنے ظروف میں لیا تو اس کی ملک ہوگیا، سو پانی کی بیع ہوئی اور وہاں سے لانے کا اجارہ نیز ’’بیع مالیس عندہ‘‘ بھی ہے۔(۴)  کوئی زیور یا انگوٹھی جڑنے کو دینا یہ نگینوں کی بیع ہے اور لگانے کا اجارہ وغیرہ۔  ذلک من المعاملات الرائجة؟

الجواب: تعامل کی وجہ سے کہ بلا نکیر شائع ہے جو ایک نوع کا اجماع ہے یہ سب معاملات جائز ہیں پس نص عام مخصوص البعض ہے جیسا فقہا نے صباغی و خیاطی میں اس کی اجازت دی ہے کہ صبغ اور خیط صانع کا ہوتا ہے اور اس میں اجارہ بھی ہوتا ہے ۔ وهذا ظاهر جدا.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved