• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

فوجی یونٹ میں نماز جمعہ کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام  اس مسئلہ کے بارے میں کہ  ایک فوجی یونٹ ہے جو 700/800 افراد پر مشتمل ہے اور نزدیک کوئی بڑا قصبہ وغیرہ نہیں ہے باقی یونٹ کے اندر تمام سہولیات میسر ہیں تو کیا اس یونٹ میں نماز جمعہ پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟

وضاحت مطلوب ہے: 1۔مذکورہ فوجی یونٹ شہر کے اندر ہے یا کسی گاؤں میں ہے؟ اگر گاؤں میں ہے تو گاؤں کا شہر سے فاصلہ کتنا ہے؟ اور مذکورہ گاؤں میں اور مساجد بھی ہیں یا نہیں؟ اگر ہیں تو کتنی مساجد ہیں؟2۔ مذکورہ یونٹ میں جمعہ شروع کروانے کی کیا مجبوری ہے؟ اور یہ لوگ پہلے کہاں جمعہ پڑھتے تھے؟3۔گاؤں میں ضروریات زندگی سکول، ڈاکٹر  اور آبادی وغیرہ کی تفصیل کیا ہے؟

جواب وضاحت: مذکورہ یونٹ گاؤں میں ہے۔ گاؤں کا شہر سے تقریبا 150 کلومیٹر فاصلہ ہے صرف ایک مسجد ہے، مسجد  بڑی تو ہے لیکن لوگ بہت کم آتے ہیں یونٹ میں ایک  خوبصورت مسجد بھی ہے۔2۔  میں اس  مسجد میں امام ہوں ، آفیسر نے مجھے جمعہ شروع کرنے کا کہا تو میں نے ان سے کہا کہ شرائط ِجمعہ نہیں  ہیں جمعہ شروع نہیں کر سکتے تو انہوں نے فتوی منگوانے کا کہا۔3۔ مذکورہ گاؤں میں نہ سکول ہے نہ ڈاکٹر ہے نہ کچہری ہے نہ ضروریات زندگی،  نہ کپڑے کی دکان ہے، نہ جوتے کی دکان ہے، مذکورہ گاؤں ہم سے دور ہے بمشکل اس کی آبادی 500/600 ہوگی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں  یونٹ  میں  جمعہ پڑھنا جائز نہیں۔

تو جیہ: جمعہ کے صحیح ہونے کے لیے مصر یا فنائے مصر ہونا ضروری ہے یعنی جس جگہ پر لوگ ہوں وہ شہر ہو یا بڑا قصبہ ہو یا شہر کی فنا ہو فنا سے مراد وہ جگہ ہے جو شہر یا قصبے کی ضرورت کے لیے تیار کی گئی ہو جیسے کہ قبرستان عیدگاہ سرکاری سکول یا ہسپتال وغیرہ مذکورہ فوجی یونٹ نہ تو شہر میں ہے اور نہ ہی شہر کی فنا میں ہے اس لیے مذکورہ یونٹ میں  جمعہ پڑھنا جائز نہیں۔

شامی (2/9-3) میں ہے:

(‌ويشترط ‌لصحتها) سبعة أشياء:الأول: (المصر) ….. (أو فناؤه)  ….. (وهو ما) حوله (اتصل به) أو لا كما حرره ابن الكمال وغيره (لأجل مصالحه) كدفن الموتى وركض الخيل والمختار للفتوى تقديره بفرسخ ذكره الولوالجي.

وفى الشامية: ‌فقد ‌نص ‌الأئمة ‌على ‌أن ‌الفناء ما أعد لدفن الموتى وحوائج المصر كركض الخيل والدواب وجمع العساكر والخروج للرمي وغير ذلك وأي موضع يحد بمسافة يسع عساكر مصر ويصلح ميدانا للخيل والفرسان ورمي النبل والبندق البارود واختبار المدافع وهذا يزيد على فراسخ فظهر أن التحديد بحسب الأمصار.

اعلاء السنن (8/128) میں ہے:

عن على رضى الله عنه: قال لا جمعة ولا تشريق ولا صلوة فطر ولا أضحى إلا في مصر جامع أو مدينة عظيمة.

فتاوی مفتی محمود (2/639) میں ہے :

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک یونٹ ایک ریگستانی علاقے میں کئی مہینے فوجی مشقت کرنے کے لیے چلے جاتے ہیں جس کو  سکیم کہتے ہیں کیا ان لوگوں کو نماز ظہر پڑھنی چاہیے یا نماز جمعہ؟

 جواب : روایت فقہیہ کے مطابق اس یونٹ کی اس علاقے میں اقامت جمعہ صحیح نہیں نماز جمعہ کی صحت اور وجوب کے لیے مصر یعنی شہر یا قصبہ اور قریہ کبیرہ کا ہونا شرط ہے لہذا ایسے مواقع پر نماز ظہر باجماعت جمعہ کی بجائے پڑھا کریں ہدایہ میں ہے: ولا جمعه بعرفات في قولهم جميعا.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved