• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

فوتگی کے موقع پر میت کےگھرکھانا کھانے اور میت کے گھر والوں کو پیسے دینے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ :

(1)گاؤں میں فوتگی کے موقع پر دور دراز کےعلاقوں سے جنازے میں شرکت کے لیے آئے ہوئے لوگوں کے لیے محلے والوں کی طرف سے کھانا پکانا اور کھلانا جائز ہے یا نہیں؟ کیونکہ ایسے دیہاتوں میں سہولیات نہیں ہوتی مطلب نہ کوئی ہوٹل نہ دکان وغیرہ صرف کسی کے گھر سے مانگ کر ہی کھا سکتا ہے یا پھر بھوکار ہے یا اگر اس علاقے میں اس آنے والے شخص کے رشتہ دار ہوں تو انکےگھرکھائے گا ورنہ اور کوئی سہولت میسر نہیں اور ایسے دیہاتوں میں پچاس فیصد لوگ  پیدل چل کر ہی جنازے میں شرکت کے لیے آتے ہیں۔

(2)تدفین کے بعد فوتگی والے گھر میں تعزیت کے لئے آنے  والوں کا اس گھر میں کھانا پینا جائز ہے یا ناجائز؟

(3)فوتگی والے گھر میں تیسرے دن قرآن خوانی کرواکر لوگوں کو دعوت دے کر یا بغیر دعوت کے گھر آئے ہوئے لوگوں کو کھانا کھلانے کے بارے میں کیا حکم ہے؟

(4)فوتگی والے گھر میں لوگ پیسے دیتے ہیں  اور ان کو باقاعدہ تحریر کیا جاتا ہے اور پھر وصول کرنے والا جب پیسے دینے والے کے گھر میں فوتگی کے موقع پر پیسے دے گا تو اس سے بڑھا کر دے گا اور بعض گاؤں میں کمیٹیاں بنی ہوئی ہیں اور پیسے مقرر کیے ہوئے ہیں مثلا ہرما ہ پانچ سو روپے اور ان پیسوں سے فوتگی  والے گھر میں تین دن کھانے کا انتظام کیا جاتا ہے، اور جو  نہ جمع کروائے اسے اچھا نہیں سمجھا جاتا ،قرآن وسنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں  کہ یہ صورت جائز ہے یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1)  اہل محلہ کی طرف سے فوتگی کے موقع پر دور سے آنے والے ایسے لوگوں کے لئے کھانا بنانے کی گنجائش ہے جن کے کھانے کا اور کوئی نظم نہ ہو اور ان کے لئے اپنے گھر واپس جا کر کھانا کھانے میں بھی دقت ہو کیونکہ  فوتگی کا موقع دعوت کا موقع نہیں کہ اس میں بلا تفریق فوتگی میں شریک ہونے والے تمام افراد کے لئے کھانا بنایا جائے چاہے بنانے والے اہل محلہ میں سے ہوں۔

(2) اس میں بھی وہی تفصیل ہے جو نمبر 1 میں ذکر ہوئی ۔

(3) ناجائز ہے۔

(4) فوتگی والے گھر میں  اس مروجہ طریقے پر پیسے دینا اور فوتگی کے موقع پر ان پیسوں سے کھانا بنانا دونوں  نا جائز ہیں، کیونکہ اول تو جو پیسے لوگوں سے جمع کیے جاتے ہیں ان میں سب کی دلی  رضامندی کا علم نہیں، اورکسی کی دلی رضا مندی کے بغیر اس کا مال استعمال کرنا جائز نہیں، اور دوسرا تحریر کی وجہ سے یہ قرض کی صورت بن جاتی ہے، اور تیسرا  وفات کے موقع پر سب کے لیے کھانا بنانا جائز نہیں، صرف اہل میت اور ان کے ایسے رشتہ داروں کے لیے بنا سکتے ہیں جو دور دراز سے آئے ہوں اور ان کا کھانے کا کوئی اورنظم نہ ہو، اور یہ بھی میت کے اڑوس پڑوس والوں کے لیے یا رشتہ داروں کے لئے صرف مستحب ہے ، فرض یاواجب نہیں ،لہذا مذکورہ طریقہ کار واجب الترک ہے۔

(1+2)فتاوی ہندیہ (19/10)میں ہے:

 ’’ويحل(الطعام)  للذين يطول مقامهم عنده و للذي يجيئ من مكان بعيد يستوي فيه الاغنياء والفقراء ولا يجوز للذي لا يطول مسافته ولا مقامه.‘‘

(1+2+3)رد المحتار (3/148)میں ہے:

ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من اهل الميت لانه شرع فى السرور لافى الشرور، وهى بدعة مستقبحة ·وروى الامام احمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال( كنا نعد الاجتماع الى أهل الميت وصنعه‍م الطعام من النياحة) وفى البزازية: ويكره اتخاذ الطعام فى اليوم الاول والثالث وبعد الاسبوع

(1+2)خیرالفتاوی (1/598) میں ہے:اس حدیث کے ماتحت ابن ہمام شار ح ہدایہ فرماتے ہیں :

ويستحب لجيران اهل الميت والاقرباء الا باعد تهيئة طعام لهم يشبعهم ليلهم ونهارهم لقوله عليه السلام اصنعوا لآل جعفر طعاما۔کہ طعام تیار کرنا اہل میت کے ہمسایوں اور بعید والے اقرباء کے لیے مستحب ہے اور یہ اطعام صرف اہل میت کے لئے ہے نہ اس تمام برادری اور مہمانوں کے لیے جو تعزیت کے لیے حاضر ہوئے ہیں ،علامہ ابن ہمام کی تشریح سے چند باتیں  منقح ہوتی ہیں  (1) طعام اتنا ہو کہ جو اہل میت کو ایک صبح اور شام کے لیے کفایت کرے (2)طعام دینے والے ہمسائےاور بعید والے رشتہ دار ہوں (3) طعام صرف اہل میت کو دیا جائے نہ تمام برادری اوران کے مہمانوں کے لیے جیسا کہ لفظ ھم دلالت کرتا ہے ورنہ پھرضیافت بن جائے گی اور حدکراہت میں داخل ہو جائے گی اس سے معلوم ہوا کہ یہ رسم قدیمانہ ہے۔

باقیات فتاویٰ رشیدیہ (196)میں ہے:

سوال :میت کے گھر طعام کھانا تین روز سے اول جائز ہے ٬یا نہیں ٬شادی ہو یا غم میں ۔

جواب :میت کے گھر کا کھانا جو صدقہ کا ہے ٬وہ تو جائز فقراء کو ہے ٬ غنی کومکروہ ہے٬اور جو اہل میت برادری کی روٹی پکاویں٬وہ مکروہ تحریمہ اور حرام ہےاور جو فخروریاکاطعام ہو وہ بھی حرام ہے ،اورجودورسے مہمان تعزیت کے واسطے آوے،اس کو کھانا درست ہے ،خواہ قبل سہ روز کے ہو،یابعدسہ روز کے ہو۔

(1+2)فتاوی محمودیہ (278/9)میں ہے  :

’’طعام اہل میت وہ ہے جو رواجا اہل میت کے ذمہ تیجہ دہم چہلم وغیرہ کے طور پر لازم کر دیا جائے اہل میت کو میت کی تجہیز و تکفین اورغم وحزن کی وجہ سے پکانے کی فراغت نہیں ہوتی تو ایک دن دو وقت کا کھانا قرابت دار لوگ ان کے پاس بھیج دیں اگر اہل میت خود پکائیں تب بھی منع نہیں ۔جو شخص بطورمہمان تعزیت کے لیے آیا ہے ،اہل میت اس کو اپنے ساتھ کھلائیں گے وہ منع نہیں یہ خیال کہ تین روز تک اہل میت کے گھر کوئی چیز نہ کھائی جائے اغلاط العوام میں سے ہے۔‘‘

(3)فتاوی رشیدیہ (154)میں ہے  :

’’مجتمع ہونا عزیزواقارب و غیرہم کا واسطے پڑھنے قرآن مجید کے یا کلمہ طیبہ کے جمع ہوکر روز وفات میت کے یا دوسرے روز یا تیسرے روز بدعت و مکروہ ہے شرع شریف میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔‘‘

(3)عمدۃالفقہ (545/2)میں ہے:

 ’’اور اہل میت کے کھانے سے دعوت لینا مکروہ ہے اس لئے کہ خوشی کے وقت مشروع ہے،  نہ کہ غم کے وقت اور یہ بہت بری بدعت ہے۔‘‘

(4)بہشتی زیور(360)میں ہے:

’’نیو تے کی رسم میں جو اکثر تقریبوں میں ادا کی جاتی ہے  ان خرابیوں کے سوا ایک اور بھی خرابی ہے وہ یہ کہ جو کچھ نیوتا آتا ہے وہ سب اپنے ذمے قرض ہو جاتا ہے اور قرض کا بلاضرورت لینا منع ہے پھرقرض کا حکم یہ ہے کہ جب کبھی اپنے پاس ہو ادا کر دینا ضروری ہے اور یہاں یہ انتظام کرنا پڑتا ہے کہ اس کے یہاں بھی جب کبھی کوئی کام ہو تب ادا کیا جائے،  اور اگر کوئی شخص نیوتےکا بدلہ ایک ہی آدھ دن کے بعددینے لگے تو ہرگز کوئی قبول نہ کرے یہ دوسرا گناہ ہوا ،اور قرض کا حکم یہ ہے کہ گنجائش ہو تو ادا کر و نہ پاس ہو نہ دو جب ہوگا دے دیا جائے گا یہاں یہ حال ہے کہ پاس ہو یا نہ ہو قرض دام لے کر گروی رکھ کر ہزار فکر کرکے لاو ٔ ضرور دو پس تینوں حکموں میں شریعت کی مخالفت ہوئی اس لئے نیوتہ کی رسم جس کا آج کل دستور ہےجائزنہیں نہ کسی کا کچھ لو اور نہ دو ۔‘‘

(4)فتاوی محمودیہ (242/11)میں ہے:

 ’’اگر یہ بطریق اعانت کے ہو اور ریاکاری نام و نمود وغیرہ کچھ نہ ہو  تو شرعاً درست بلکہ مستحسن ہے، مگر طریقہ مروجہ کی حیثیت سے بجز رسم ورواج کے کچھ نہیں،  اور بسا اوقات برادری کے زور یا رسوائی کے خوف سے دیا جاتا ہے ،  بلکہ اگر پاس نہ ہو تو قرض یا سود لے کر دیا جاتا ہے،  اس لیے ناجائز ہے،  اور اگر بطور قرض دیا جاتا ہے جیسا کہ بعض جگہ رواج ہے تو اس میں بھی مفاسد ہیں۔ ’’ لايحل مال امرىءالابطيب نفس منه ، رواه البیہقی،، مشكوة ،(255/2)‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved