• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

گاڑی بک کرانے پر کمپنی کی طرف سے انٹرسٹ کے نام سے ملنے والی رقم کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلے کے بارے میں کہ میں نےفروری میں  ہنڈا کمپنی میں ایک گاڑی بک کروائی ، گاڑی کی کل قیمت 24 لاکھ روپے تھی، اور اس وقت کمپنی والوں نے مجھ سے دس لاکھ روپے لیے اور انہوں نے مجھے گاڑی کی ادائیگی کا ستمبر کا مہینہ بتایا۔ اور کہا کہ باقی پیسوں کی ادائیگی گاڑی آنے سے مہینہ پہلے کرنی ہو گی، پھر انہوں نے مجھ سے جولائی میں رابطہ کیا کہ مہینے تک آپ کی گاڑی آجائے گی لہذا باقی رقم ادا کر دیں، تو میں نے رقم کی ادائیگی کر دی، گاڑی پیسوں کی ادائیگی کے کچھ عرصہ بعد آگئی، اس کے ڈیڑھ دو مہینے بعد ہنڈا والوں نے مجھے تقریباً 16000 کا چیک بھیجا اور کہا کہ یہ ان روپوں پر سود کی رقم ہے جو ہم نے آپ سے روپے دو مہینے کی مدت سے زیادہ رکھے کیونکہ حکومت کی طرف سے دو مہینوں کے زیادہ روپے رکھنے کی اجازت نہیں۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ

1۔ ان 16000 روپوں کا کیا حکم ہے؟ حلال ہے یا حرام؟ کیونکہ ہمیں پتہ نہیں تھا کہ یہ ہمیں ملیں گے اور نہ پہلے کسی گاڑی کے بک کروانے پر ہمیں ملے۔

2۔ اب ہمیں پتہ ہے کہ جب گاڑی بک کروائیں گے اور کمپنی اگر دو مہینوں سے زیادہ رقم رکھے گی تو ہمیں اس پر پیسے ملیں گے تو آئندہ کے لیے اس صورت میں ان پیسوں کا کیا  حکم ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

2۔1۔ مذکورہ صورت میں اگرچہ کمپنی یہ رقم انٹرسٹ کے نام سے واپس کر رہی ہے لیکن چونکہ آپ نے کمپنی کو مذکورہ رقم قرضے میں نہیں دی بلکہ گاڑی بک کرانے کی مد میں دی ہے اس لیے شریعت کی رُو سے یہ رقم سود شمار نہ ہوگی بلکہ گاڑی کی قیمت میں ڈسکاؤنٹ شمار ہو گی لہذا یہ رقم لینا جائز ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved