• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

گائے کے ذبح کی منت کے بعد ذبح  کرنے کی بجائے اس کی قیمت دینے کا حکم

استفتاء

مفتی صاحب ایک آدمی کی گائے ہے۔ اس نے منت مانی تھی کہ جب یہ  گائے بوڑھی ہو جائے گی تو میں اس کو ذبح کر کے لوگوں میں تقسیم کر ونگا۔ اب گائے بوڑھی ہو گئی ہے۔ اب اس آدمی کا ارادہ بن رہا ہے کہ اس گائے کو ذبح نہ کروں بلکہ اس کو بیچ کر قریبی زیر تعمیر مسجد میں اس کی رقم جمع کروا دوں۔ کیا یہ جائز ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

ناذر کو اختیار ہے کہ  چاہے تو اسی گائے کو ذبح کرے  یا اس کی جگہ کسی اور گائے کو ذبح کرے  اور گوشت تقسیم کرے یا اس کے گوشت کی جگہ اس کی قیمت ادا کرےالبتہ گوشت یا قیمت خود نہیں استعمال کر سکتا نہ ہی مالداروں میں تقسیم کر سکتا ہے اور نہ ہی  اس کی قیمت مسجد میں دے  سکتا ہے بلکہ صرف مستحق زکوۃ لوگوں میں تقسیم کرے۔

فتاوی العالمگیریہ، كتاب الایمان، فصل الثانی،ومما يتصل بذلك مسائل النذر(طبع: مکتبہ رشیدیہ، جلد نمبر 3صفحہ نمبر151) میں ہے:

"من نذر نذرا مطلقا فعليه الوفاء به كذا في الهداية ولو جعل عليه حجة أو عمرة أو صوما أو صلاة أو صدقة أو ما أشبه ذلك مما هو طاعة إن فعل كذا ففعل لزمه ذلك الذي جعله على نفسه۔۔۔ ويلزمه عين ما سمى كذا في فتاوى قاضي خان”

فتاوی بزازیہ  ، کتاب الایمان، الثانی، النوع الثالث   فی النذر(طبع: مکتبہ رشیدیہ، جلد نمبر3 صفحہ نمبر 145)پر ہے:

"ولو قال على شاة اذبحها واصدق بلحمها لزمه لله على ان اذبح جزورا و اصدق بلحمه يذبح مكانه سبع شياه”

فتاوی العالمگیریہ ، کتاب الاضحیہ، الباب الخامس (طبع: مکتبہ رشیدیہ، جلد نمبر 9صفحہ نمبر58) میں ہے:

"إن وجبت بالنذر فليس لصاحبها أن يأكل منها شيئا ، ولا أن يطعم غيره من الأغنياء سواء كان الناذر غنيا أو فقيرا ؛ لأن سبيلها التصدق وليس للمتصدق أن يأكل صدقته ، ولا أن يطعم الأغنياء ، كذا في التبيين . وأما في الأضحية المنذورة سواء كانت من الغني أو الفقير فليس لصاحبها أن يأكل ولا أن يؤكل الغني هكذا في النهاية”

رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الزكاة ، باب المصرف (طبع: مکتبہ رشیدیہ، جلد نمبر 3صفحہ نمبر 341) میں ہے:

” ويشترط ان يكون الصرف (تمليكا) لا اباحة كما مر (لا) يصرف (الى بناء) نحو (مسجد و)

قال ابن عابدين في ابتداء الباب : وهو مصرف أيضا لصدقة الفطر والكفارة والنذر وغير ذلك من الصدقات الواجبة كما في القهستاني”

خیر الفتاوی، کتاب الایمان والنذور  (طبع:مکتبہ امدادیہ ملتان،  جلد نمبر 6صفحہ نمبر 205) میں ہے:

"زید کا لڑکا اور بھائی جنگی قیدیوں میں سے ہیں، زید نے نذر مانی کہ جب وہ آئیں گے میں فلاں بچھڑا ذبح کروں گا۔وہ اب تک نہ آئے اور نہ معلوم ہے کہ کب آئیں گے "بچھڑا” جوان ہے اور دوسرے جانوروں کو کاٹتا  ہے اور اس کا گوشت خراب ہونے کا بھی خطرہ ہے۔ لہذا اب کیا کرنا چاہیے کیا ذبح کرنے سے نذر پوری ہو جائے گی یا نہیں یا اس کی قیمت کو رکھ لیا جائے بوقت آمد جانور خرید لیا جائے یا وہ پیسہ خیرات کر دیا جائے؟

الجواب: ۔۔۔نذرِ مذکور کی صحت کا مدار بظاہر تصدق ہونے پر ہے اس لئے اس کٹے کو فروخت کردیا جائے اور قیدیوں کے آنے پر یہ قیمت غرباء میں تقسیم کر دی جائے یا اس قیمت کا جانور لے کر گوشت تقسیم کر دیا جائے تو اس کی گنجائش ہے”

خیر الفتاوی، کتاب الایمان والنذور  (طبع:مکتبہ امدادیہ ملتان،  جلد نمبر 6صفحہ نمبر 205) میں ہے:

"ایک شخص نے نذر مانی کہ اگر میں فلاں مقدمہ میں بری ہو گیا تو اپنا فلاں بکرا صدقہ کروں گا لیکن مقدمہ سے برأت نا معلوم کب ہوتی ہے جبکہ بکرا کافی بڑا ہو گیا ہے، اس لئے خیال ہے کہ اس کو بیچ دیا جائے جب مقدمہ سے برأت  ہو جائے گی تو اور بکرا خرید کر صدقہ کر دیں گے۔ کیا شرعاً اس طرح کرنے کی گنجائش ہے؟

الجواب: صورت مسئولہ میں اگر فروخت کرنے سے پہلے مقدمہ سے بری ہو گیا تو یہ بکرا چاہے زندہ صدقہ کر دے یا ذبح کر کے گوشت صدقہ کر دے یا اس کی قیمت صدقہ کر دے اور فروخت کرنے کے بعد بھی یہی اختیارات حاصل ہوں گے”

امدادالفتاوی، کتاب النذور (طبع: زکریا بک ڈپو انڈیا، جلد نمبر 2صفحہ نمبر 546) میں ہے:

سوال(۶۷۹)   ایک شخص کے پاس ایک بکری تھی وہ بیمار ہوگئی اُس نے زبان سے کہا کہ اگر یہ بکری اچھی ہوجائے گی تو قربانی کروں گا۔ پھر وہ اچھی ہوگئی تو اُس کو قربانی کرنا ضروری ہے یعنی یہ کہنا کہ یا اللہ اگر اچھی ہوجائے تو قربانی کروں گا نذر ہے اور اگر نذر ہو اور اُس کو بیچ ڈالے تو اب اُس کی قیمت کو کیا کرے ؟

جواب:۔۔۔ قربانی سے مراد اگر مطلق ذبح ہے تب تو کسی زمان کی قید نہ ہوگی اور اگر تضحیہ مراد ہے تو ایام نحر کی قید ہوگی۔ اور نیز ذبح مراد لینے میں یہ بھی اختیار ہے خواہ ذبح کرکے تصدق کرے یا بکری کی قیمت کا تصدق کردے۔ اور بیچ ڈالنے کے بعد بھی دونوں اختیار ہیں خواہ دوسری بکری خرید کر ذبح وتصدق کرے خواہ وہ قیمت تصدق کردے۔ اور اگر تضحیہ مراد لیا ہے اور پھر بیچ ڈالا تو اگر کسی خاص سال کی قید لگائی تھی تو اس کی قیمت کا تصدق کردے اور اگر تضحیہ میں کسی سال کی قید نہ لگائی تھی تو ایام نحر میں اُس قیمت کی بکری خرید کر قربانی کرے”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved