- فتوی نمبر: 20-228
- تاریخ: 27 مئی 2024
- عنوانات: حظر و اباحت > کھیل و تفریح
استفتاء
کیا جو گیمز بچے دکان پر کھیلتے ہیں وہ کمائی حلال ہےیا حرام ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
گیم کا کھیل خود ناجائز ہے کیونکہ اس میں نہ دنیا کا کوئی فائدہ ہے اور نہ دین کا بلکہ اس میں کئی خرابیاں پائی جاتی ہیں جن میں وقت اور صلاحیتوں کا زیاں سر فہرست ہے اس کے علاوہ دیکھا گیا ہے کہ اس کو کھیلنے والے اکثر اس میں بہت زیادہ منہمک ہوجاتے ہیں اور لہو ولعب میں انہماک شرعا ناپسندیدہ ہے جب یہ کھیل خود نا جائز ہے تو ناجائز ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی ناجائز ہوگی۔
(تکملہ فتح الملہم (258/4)
فالضابط في هذا الباب … أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، ولیس له غرض صحیح مفید في المعاش ولا المعاد حرامٌ أو مکروہٌ تحریمًا … وما کان فیه غرض ومصلحة دینیة أو دنیویة، فإن ورد النهي عنه من الکتاب أو السنة … کان حرامًا أو مکروها تحریمًا … وأما ما لم یرد فیه النهي عن الشارع، وفیه فائدۃ ومصلحة للناس، فهو بالنظر الفقهي علی نوعین: الاول: ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه، ومفاسدہ أغلب علی منافعه، وأنه من اشتغل به ألهاہ عن ذکر الله وحدہ، وعن الصلوات والمساجد، التحق ذٰلک بالمنهي عنه، لاشتراک العلة، فکان حرامًا أو مکروها۔ والثاني: ما لیس کذٰلک، فهو أیضًا إن اشتغل به بنیة التلهي والتلاعب فهو مکروہٌ۔ وإن اشتغل به لتحصیل تلک المنفعة، وبنیة استجلاب المصلحة فهو مباح؛ بل قد یرتقي إلی درجة الاستحباب أو أعظم منه… وعلی هذا الاصل فالالعاب التي یقصد بها ریاضة الابدان أو الاذهان جائزۃ في نفسها ما لم تشتمل علی معصیةأخریٰ، وما لم یؤد الانهماک فیها إلی الإخلال بواجب الإنسان في دینه ودنیاہ۔
فتاویٰ شامی (6/55)میں ہے:
لاتصح الاجارة….لاجل المعاصي مثل الغناء والنوح والملاهي.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (9/ 363)ميں ہے:
وعلى هذا يخرج الاستئجار على المعاصي أنه لا يصح لأنه استئجار على منفعة غير مقدورة الاستيفاء شرعا كاستئجار الإنسان للعب واللهو ، وكاستئجار المغنية ، والنائحة للغناء ، والنوح۔
فتاویٰ ہندیہ(7/478)میں ہے:
ولا تجوز الاجارةعلى شيء من الغناء والنوح والمزامير والطبل وشيء من اللهو
© Copyright 2024, All Rights Reserved