• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

گندم کی ذخیرہ اندوزی کرنے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص سستے داموں  گندم خریدتا ہے پھر کبھی توفورا اس کو فروخت کردیتا ہے؟ اور کبھی 4،5 مہینے بعد جب   زیادہ نفع  ہو تب  فروخت کرتا ہے ۔کیا مذکورہ دونوں صورتیں جائز ہیں؟یا ذخیرہ اندوزی میں شامل ہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

پہلی صورت (خرید کر فورا فروخت کردینا) ذخیرہ اندوزی میں نہیں آتی  اس لیے جائز ہے  اور دوسری  صورت (4،5مہینے اپنے پاس رکھ کر پھر فروخت کرنا) میں اگرگندم کی ذخیرہ اندوزی  سے لوگوں کو نقصان پہنچ رہا ہو تو جائز  نہیں اور اگر نقصان نہیں پہنچ رہا تو جائز ہے۔

در مختار مع رد المحتار(9/571)میں ہے:

(و) كره (احتكار قوت البشر) كتبن وعنب ولوز (والبهائم) كتبن وقت (في بلد يضر بأهله) لحديث «الجالب مرزوق والمحتكر ملعون» فإن لم يضر لم يكره

(قوله ‌وكره ‌احتكار ‌قوت البشر) الاحتكار لغة: احتباس الشيء انتظارا لغلائه والاسم الحكرة بالضم والسكون كما في القاموس، وشرعا: اشتراء طعام ونحوه وحبسه إلى الغلاء أربعين يوما لقوله – عليه الصلاة والسلام – «من احتكر على المسلمين أربعين يوما ضربه الله بالجذام والإفلاس» وفي رواية «فقد برئ من الله وبرئ الله منه» قال في الكفاية: أي خذله والخذلان ترك النصرة عند الحاجة اهـ وفي أخرى «فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين لا يقبل الله منه صرفا ولا عدلا» الصرف: النفل، والعدل الفرض شرنبلالية عن الكافي وغيره وقيل شهرا وقيل أكثر وهذا التقدير للمعاقبة في الدنيا بنحو البيع وللتعزير لا للإثم لحصوله وإن قلت المدة وتفاوته بين تربصه لعزته أو للقحط والعياذ بالله تعالى در منتقى مزيدا، والتقييد بقوت البشر قول أبي حنيفة ومحمد وعليه الفتوى كذا في الكافي، وعن أبي يوسف كل ما أضر بالعامة حبسه، فهو احتكار وعن محمد الاحتكار في الثياب ابن كمال.

(قوله كتين وعنب ولوز) أي مما يقوم به بدنهم من الرزق ولو دخنا لا عسلا وسمنا در منتقى (قوله وقت) بالقاف والتاء المثناة من فوق الفصفصة بكسر الفاءين وهي الرطبة من علف الدواب اهـ ح وفي المغرب: القت اليابس من الإسفست اهـ ومثله في القاموس وقال في الفصفصة بالكسر هو نبات فارسيته إسفست تأمل (قوله في بلد) أو ما في حكمه كالرستاق والقرية قهستاني (قوله يضر بأهله) بأن كان البلد صغيرا هداية

شامی(9/658)میں ہے:

(‌ولا ‌يكون ‌محتكرا بحبس غلة أرضه) بلا خلاف

(قوله ‌ولا ‌يكون ‌محتكرا إلخ) لأنه خالص حقه لم يتعلق به حق العامة، ألا ترى أن له أن لا يزرع فكذا له أن لا يبيع هداية قال ط والظاهر أن المراد أنه لا يأثم إثم المحتكر وإن أثم بانتظار الغلاء أو القحط لنية السوء للمسلمين اهـ

امدادالفتاوی(6/277)میں ہے:

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان  شرع متین کہ زید نے فصل پر شہر کے شہر میں گندم  ہزار پانسو روپے کے  خرید کرکے بھر رکھےکہ عند الموقع فروخت کروں گا،اس  عرصہ میں ایسا موقع بھی ہوا کہ اگر فروخت کرتا  تو اس کو نفع ہوتا تاہم انتظار گرانی ہے،سو یہ احتکار ہوا یا نہیں اور اگر یہ احتکار نہیں تو احتکار کی کیا تعریف ہے؟اور کیا حکم اس کی  نسبت؟

الجواب:اگر اس کے روکنے سے لوگوں کو کچھ ضرر ہوا تو احتکار ہوا،ورنہ  نہیں ہوا ،کیونکہ احتکار کے معنی  روکنا غلہ کا وقت ضرورت خلائق بنظر گرانی  اور اس کی مدت میں اختلاف ہے بعض کے نزدیک ایک ماہ  بعض کے نزدیک چالیس روز ،غرض یہ ہے کہ جب لوگوں کو ضرورت پڑنے لگے  اور روکنے سے ضرر ہونے لگے احتکار ہوجاتا ہے۔

فتاوی دارالعلوم دیوبند(14/386)میں ہے:

سوال:اگر کسی شخص نے غلہ روزگار کرنے کے لیے فصل پر خرید کر جمع رکھا اور بعد میں فروخت کیا

شرعا جائز  ہے یا نہیں؟

جواب:اگر اس کا غلہ روکنا اہل شہر کو مضر ہواور لوگوں کو تنگی پیش آتی ہے تو یہ فعل مکروہ ہے اور اگر اس کے روکنے سے اہل شہر  کو کچھ نقصان نہیں  ہے ،غلہ بازار میں بہت ملتا ہےاور اس کے روکنے نہ روکنے سے نرخ میں کچھ فرق نہیں  ہوتا جیساکہ آج کل عموما یہی حال ہے تو ا س میں کچھ حرج نہیں،درست ہے۔

مسائل بہشتی زیور(2/246)میں ہے:

جس ذخیرہ اندوزی سے انسانوں کی غذائی اجناس اور چوپایوں کے چارے میں قلت پیدا ہوجائے یا مہنگائی ہوجائے  اور اس طرح شہر والوں کو نقصان اور ضرر ہوتا ہو  تو وہ ذخیرہ اندوزی بالاتفاق ناجائز ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved