• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

گندم میں بیع سلم کرنے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام  اس مسئلہ کے بارے میں کہ  ایک شخص گندم کو ادھار فروخت کرتا ہے اور میں اس سے خریدتا ہوں  (بسا اوقات اپنے لیے اور بسا اوقات آگے فروخت کرنے کے لیے)بایں طورکہ  اس وقت  گندم کی قیمت  3000روپےفی من ہے اور وہ 2000روپے فی من کے حساب سے  فروخت کرتا ہے ،اور اس کے پاس فی الحال گندم بھی نہیں ہوتی ۔تاہم اس خرید و فروخت میں ہم (1)گندم کی کوالٹی(2)مقدار(3)ریٹ

(4)گندم کی حوالگی کی مدت (ہمارے عقدمیں کم ازکم حوالگی کی مدت 3مہینے ہوتی ہے)(5)جس جگہ گندم حوالہ کرنی ہو وہ جگہ طے کرتے ہیں تاہم  گندم کی قیمت بعض اوقات اسی مجلس میں ادا کرتے ہیں اور بعض  اوقات ایک ہفتہ یا آٹھ دن کے بعد ادا کرتے ہیں۔

1۔کیا یہ خریدو فروخت جائز ہے؟

2۔اگر یہ جائز نہ ہو تو جائز کی کیا صورت ہے ؟

3۔اس بیع کو بیع سلم کہتے ہیں  یا کوئی اور بیع؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(3۔1)مذکورہ  صورت بیع سلم کی ہے اور جائز ہے تاہم  اسی مجلس میں گندم کی  مکمل قیمت کی ادائیگی ضروری ہے ورنہ بیع سلم جائز نہ ہوگی اس لیے اسی مجلس میں  گندم کی  مکمل قیمت کی ادائیگی کی جائے۔اگر آپ آگے فروخت کرنے کے لیے گندم خریدتے ہیں تو جب تک اس گندم پر قبضہ نہ کرلیں اسے آگے فروخت کرنا جائز نہ ہوگا۔

درمختار(7/478)میں ہے:

(هو) لغة:كالسلف وزنا و معنى و شرعا:(بيع آجل)و هو المسلم فيه(بعاجل)و هو رأس المال.

                        درمختار(7/486)میں ہے:

(وشرطه) أي ‌شروط ‌صحته التي تذكر في العقد سبعة (بيان جنس) كبر أو تمر (و) بيان (نوع) كمسقي أو بعلي (وصفة) كجيد أو رديء (وقدر) ككذا كيلا لا ينقبض ولا ينبسط (وأجل وأقله) في السلم (شهر) به يفتى وفي الحاوي لا بأس بالسلم في نوع واحد على أن يكون حلول بعضه في وقت وبعضه في وقت آخر(ويبطل) الأجل (بموت المسلم إليه لا بموت رب السلم فيؤخذ) المسلم فيه (من تركته حالا) لبطلان الأجل بموت المديون لا الدائن ولذا شرط دوام وجوده لتدوم القدرة على تسليمه بموته

 (و) بيان (قدر رأس المال) إن تعلق العقد بمقداره كما (في مكيل وموزون وعددي غير متفاوت) واكتفيا بالإشارة كما في مذروع وحيوان قلنا ربما لا يقدر على تحصيل المسلم فيه فيحتاج إلى رد رأس المال ابن كمال: وقد ينفق بعضه ثم يجد باقيه معيبا فيرده ولا يستبدله رب السلم في مجلس الرد فينفسخ العقد في المردود ويبقى في غيره فتلزم جهالة المسلم فيه فيما بقي ابن مالك فوجب بيانه (و) السابع بيان (مكان الإيفاء) للمسلم فيه (فيما له حمل)

وفي ” شرح المجمع ” وهذا ليس بصحيح، لأن الثلاث هناك أقصى المدة وأدناه غير مقدر، وهكذا في الإيضاح (وقيل أكثر من نصف اليوم)  وبه قال أبو بكر الرازي وبعض أصحاب زفر – رحمه الله-

مسائل بہشتی زیور(2/277)میں ہے:

اول:شرط یہ ہے  کہ گندم کی کیفیت  کوخوب  صاف صاف ایسی طرح بتادے کہ لیتے وقت دونوں میں جھگڑا نہ پڑے مثلا کہدے کہ فلاں قسم کاگیہوں دینا،بہت پتلا نہ ہو نہ پالا مارا ہو ،عمدہ ہو خراب نہ ہو،اس میں کوئی اور چیز چنے  ،مٹروغیرہ نہ ملی ہو۔خوب سوکھے ہوں گیلے نہ ہوں۔غرض کہ جس قسم کی چیز لینا ہو ویسی بتادینا چاہیے تاکہ لیتے وقت جھگڑا نہ ہو۔اگر اس وقت  صرف اتنا کہہ دیا کہ دس ہزار روپے  کے گیہوں دے دینا تو یہ  ناجائز ہوا ۔یا یوں کہا کہ ان دس ہزار روپے کہ چاول دے دینا اس کی قسم کچھ نہیں بتائی یہ سب ناجائز ہے۔

دوسری  شرط:یہ ہے کہ نرخ بھی اسی وقت طے کرلے کہ سوروپے کہ پندرہ کلو یا بیس کلو کے حساب سے لیں گے ،

اگر یوں کہا کہ اس وقت جو بازار کا بھاؤ ہو اس حساب سے ہم کو دینا  یا اس سے دو کلو زیادہ دینا تو یہ جائز نہیں ۔۔۔۔۔

تیسری شرط:یہ ہے کہ جتنے روپے کے لینا ہو اسی وقت بتادو  کہ ہم دس ہزار روپے یا بیس ہزار روپے کے گیہوں لیں گے ،اگر یہ نہیں بتایا اور یوں ہی گول مول کہہ دیا کہ کچھ رقم کے   ہم بھی لیں گے تو یہ صحیح نہیں۔

چوتھی  شرط :یہ ہے کہ اسی وقت اسی جگہ  رہتے رہتے سب روپے دے دو ،اگر معاملہ کرنے کے بعد الگ ہو کر پھر روپے دئیے تو وہ معاملہ بالکل باطل ہوگیا،اب نئے سرے سے کرنا چاہیے۔اسی طرح اگر پانچ ہزار  روپے اسی وقت سے دے دئیے  اور پانچ ہزار روپے دوسرے وقت دیئےتو پانچ ہزار میں بیع سلم باقی رہی اور پانچ ہزار روپے میں باطل ہوگئی ۔

پانچویں شرط :یہ ہے کہ اپنے  لینے کی کم سے کم مدت ایک مہینہ مقرر کی جائے کہ ایک مہینہ بعد   فلاں تاریخ کو ہم گیہوں  لیں گے ،مہینے سے کم مدت مقرر کرنا صحیح نہیں اور زیادہ چاہے جتنی مقرر کرے جائز ہے،امام شافعی ؒ   مدت کی کچھ تحدید نہیں کرتے ،غرض دن تاریخ مہینہ سب مقرر کردے تاکہ جھگڑا نہ پڑے کہ وہ کہے میں ابھی نہ دوں گا اور تم کہو نہیں آج ہی دو ،اس لیے پہلے ہی سے سب طے کرلو،اگر دن تاریخ مہینہ مقرر نہ کیا بلکہ یوں کہا کہ جب فصل کٹے گی  تب دے دینا تو صحیح نہیں۔

چھٹی شرط:یہ ہے کہ یہ بھی مقرر کردے کہ فلاں جگہ وہ گیہوں  دینا یعنی اسی شہر میں یا کسی دوسرے  شہر میں  جہاں لینا ہو وہاں پہنچانے کے لیے کہہ دے یا یوں کہہ دے کہ ہمارے گھر پہنچادینا،غرض کہ جو منظور ہو صاف بتادے۔اگر یہ نہیں بتایا تو صحیح نہیں ،البتہ اگر کوئی ہلکی چیز ہو جس کے لانے اور لے جانے میں کچھ مزدوری نہیں لگتی مثلا مشک خریدا سچے موتی یا اور کچھ تو لینے کی جگہ بتانا ضروری نہیں ،جہاں خریدا ر ملے اس کو دےدے۔

ساتویں شرط:سلم کے صحیح ہونے  کی یہ ہے کہ جس وقت سے معاملہ کیا  ہے اس وقت سے لے کر لینے اور وصول پانے کے زمانے تک وہ چیز بازار میں ملتی رہے نایاب نہ ہو    اگر اس درمیان میں وہ چیز  بالکل نایاب ہوجائے کہ اس ملک کے بازاروں میں نہ ملے  گو دوسری جگہ سے بہت مصیبت جھیل کر منگوالے تووہ بیع سلم باطل ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved