• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

گندم پیس کر  اجرت میں پیسے اور آٹا دونوں لینا؟

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام دریں مسئلہ کہ آج کل یہ جو رواج عام ہو چکا ہے کہ جب گندم پسائی کے لیے دیتےہیں تو اسکی مزدوری  میں دوکاندار گاہک سے کچھ نقدی بھی لیتا ہے اس کے ساتھ فی من دو کلو آٹے کی کٹوتی بھی کرتا ہے اب دریافت طلب امر یہ ہے  جو فی من دو کلو آٹے کی کٹوتی کرتا ہے اس کی شرعا کیا حیثیت ہے ؟نیز عدم جواز کی صورت میں کوئی اس کے متبادل صورت جو کہ شرعا جائز ہو اس کی طرف  بھی رہنمائی فرماکر عند اللہ ماجو ر ہوں ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اگر اسی گندم سے حاصل ہونے والے آٹے میں سے دو کلو طے کیے جائیں تو یہ اجارہ فاسد ہے کیونکہ پیسی جانے والی گندم میں سے اجرت طے کی جارہی ہے جو کہ ’’قفیز طحان‘‘میں داخل ہے، جس سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے، کیونکہ جو چیز فی الحال موجود نہیں، بلکہ اجیر (مزدور) کے عمل  سے حاصل ہوگی، اس کو اجیر کے لیے اجرت مقرر کرنا جائز نہیں ہے۔

البتہ متبادل مندرجہ ذیل طریقے جائز ہیں : (1)مالک گندم میں سے اجرت پہلے ہی نکال کر چکی والے کو دے دے۔ چکی والا اپنی اجرت کی گندم کو باقی گندم کے ساتھ پیس کر اپنا حصہ علیحدہ کر لے ۔

(2)اجرت میں صرف روپے یا صرف گندم  (نہ کہ آٹا) یا دونوں  چیزیں (روپے اور گندم) طے کر لے۔

(3)آٹے کو بلا تعیین ذکر کرے یعنی یوں کہے کہ ایک من گندم کی پسائی کی اجرت ایک کلو آٹا ہو گی یوں نہ کہے کہ پسے ہوئے آٹے میں سے ایک کلو ہو گی۔ پھر خواہ کوئی دوسرا آٹا دے یا اسی پسے ہوئے میں سے دے۔ہمارے ہاں عام طور سے یہی صورت ہوتی ہے۔

رد المحتار(6/56)میں ہے:

 (ولو) (دفع غزلاً لآخر لينسجه له بنصفه) أي بنصف الغزل (أو استأجر بغلاً ليحمل طعامه ببعضه أو ثوراً ليطحن بره ببعض دقيقه) فسدت في الكل؛ لأنه استأجره بجزء من عمله، والأصل في

ذلك نهيه صلى الله عليه وسلم عن قفيز الطحان وقدمناه في بيع الوفاء. والحيلة أن يفرز الأجر أولاً أو يسمي قفيزاً بلا تعيين ثم يعطيه قفيزاً منه فيجوز.

(قوله: والحيلة أن يفرز الأجر أولاً) أي ويسلمه إلى الأجير، فلو خلطه بعد وطحن الكل ثم أفرز الأجرة ورد الباقي جاز، ولا يكون في معنى قفيز الطحان إذ لم يستأجره أن يطحن بجزء منه أو بقفيز منه كما في المنح عن جواهر الفتاوى. قال الرملي: وبه علم بالأولى جواز ما يفعل في ديارنا من أخذ الأجرة الحنطة والدراهم معاً، ولا شك في جوازه (قوله: بلا تعيين) أي من غير أن يشترط أنه من المحمول أو من المطحون فيجب في ذمة المستأجر.

فتاویٰ عالمگیری(7/463)میں ہے:

’’صورة قفيز الطحان أن يستأجر الرجل من آخر ثوراً ليطحن به الحنطة على أن يكون لصاحبها قفيز من دقيقها أو يستأجر إنساناً ليطحن له الحنطة بنصف دقيقها أو ثلثه أو ما أشبه ذلك فذلك فاسد، والحيلة في ذلك لمن أراد الجواز أن يشترط صاحب الحنطة قفيزاً من الدقيق الجيد ولم يقل من هذه الحنطة، أو يشترط ربع هذه الحنطة من الدقيق الجيد؛ لأن الدقيق إذا لم يكن مضافاً إلى حنطة بعينها يجب في الذمة والأجر كما يجوز أن يكون مشاراً إليه يجوز أن يكون ديناً في الذمة، ثم إذا جاز يجوز أن يعطيه ربع دقيق هذه الحنطة إن شاء. كذا في المحيط‘‘

امداد الاحکام(3/585) میں ہے:

سوال :زید کے پاس  آٹا پیسنے کی ایک مشین ہے ،اور ایک من گیہوں کی پسوائی یعنی اجرت میں (چار آنہ نقد اور ایک سیر آٹا ) لیتا ہے تو آیا ایسے اجرت لینا جائز ہے یا نہیں ؟

جواب:پسوائی میں ایک سیر آٹا فی من لینا جائز نہیں ،لكونه من قفيز الطحان وقد نهى عنه،بلکہ جس قدر اجرت لینا ہو نقد لیجائے۔

نوٹ:لیکن اگر یہ امر یقینی ہو کہ آٹا پسوانے والا اگر اس آٹے میں سے نہ دے بلکہ اپنے پاس سے دینے لگے تو آٹا پیسنے والا لینے سے انکار نہ کرے تو اس صورت میں خود اس پسے ہوئے سے بھی دینا لینا جائز ہے۔12 اشرف

مسائل بہشتی زیور(2/322) میں ہے:

پیسنے کے لیے کسی کو گندم دی اور کہا کہ اسی میں سے پاؤ بھر آٹا پسائی لے لینا۔ یا کھیت کٹوایا اورکہا کہ اسی میں سے اتنا غلہ مزدوری لے لینا یہ سب فاسد ہے۔ اسی طرح جولاہے کو کپڑا بننے کے لیے سوت دیا اور شرط کی کہ جو کپڑا وہ بنے گا اس میں سے اتنا کپڑا اس کو اجرت میں دیں گے تو یہ بھی فاسد ہے۔

البتہ مندرجہ ذیل طریقے جائز ہیں : (۱)مالک گندم میں سے اجرت پہلے ہی نکال کر چکی والے کو دے دے۔ چکی والا اپنی اجرت کی گندم کو باقی گندم کے ساتھ پیس کر اپنا حصہ علیحدہ کر لے تو جائز ہے۔ (ب)اجرت

میں روپے یا گندم یا دونوں چیزیں طے کر لے۔ (ج)آٹے کو بلا تعیین ذکر کرے یعنی یوں کہے کہ ایک من گندم کی پسائی کی اجرت ایک کلو آٹا ہو گی یوں نہ کہے کہ پسے ہوئے آٹے میں سے ایک کلو ہو گی۔ پھر خواہ کوئی دوسرا آٹا دے یا اسی پسے ہوئے میں سے دے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved