• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

گاؤں  ’’باغ دوشخیل‘‘میں جمعہ کی نماز کا حکم

استفتاء

ہمارا گاؤں  ’’باغ دوشخیل‘‘ ’’مین دوشخیل‘‘ اور آٹھ محلوں پر مشتمل ہے، ‘’مین دوشخیل‘‘ میں گھروں کی تعداد ساڑھے چار سو سے پانچ سو تک ہے، اور بالغ مردوں کی تعداد کم از کم  ہزار افراد ہے، اور کل آبادی بھی کم از کم ڈھائی ہزار سے تین  ہزار ہو گی۔  ‘’مین دوشخیل‘‘ میں ایک مسجد ہے، جس کی حال ہی میں  (جگہ تنگ پڑنے کی وجہ سے) دوبارہ نئی تعمیر اور توسیع کی گئی ہے، اس کی چوڑائی90 فٹ اور لمبائی 124 فٹ ہے۔نیز ‘’مین دوشخیل‘‘ میں ہر قسم کی (پرچون، کپڑے،  جوتے وغیرہ کی) تقریباً بیس پچیس دکانیں  موجود ہیں۔ کچھ دکانیں متصل بھی ہیں اور کچھ الگ الگ بھی ہیں۔ پہلے ‘’مین دوشخیل‘‘ میں ہسپتال موجود تھا، جو منہدم ہو گیا ہے،  اب وہی ہسپتال ’’دوشخیل‘‘ کے ایک دوسرے محلے میں منتقل ہو گیا ہے۔ ‘’مین دوشخیل‘‘ میں اب ایک باقاعدہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر موجود ہے۔

اس کے علاوہ دوشخیل کے آٹھ محلے اور بھی ہیں ، آٹھ محلوں میں بالغ مردوں کی مجموعی تعداد بھی کم از کم ہزار ہے اور تمام محلوں کے کل گھر وں کی ملا کر تعداد تقریباً پانچ  سو ہے۔ ہر محلے کی اپنی مسجد ہے اور ہر محلے میں چار پانچ دکانیں ہیں، جن میں ضرورت کی تمام چیزیں (پرچون، کپڑے، جوتے) مل جاتی ہیں، لیکن اتنی وافر مقدار میں نہیں ہوتیں جتنی ‘’مین دوشخیل‘‘ میں یہ چیزیں ملتی ہیں۔

اگر ‘’مین دوشخیل‘‘ اور آٹھ محلوں کے تمام بالغ مرد اکٹھے ہو کر جامع مسجد ’’مین دوشخیل‘‘ میں نماز پڑھیں تو (مسجد کی توسیع کے باوجود )وہ مسجد میں نہیں سماتے۔

پورے دوشخیل میں اگرچہ  باقاعدہ قاضی تو موجود نہیں لیکن وہاں کے مشران موجود ہیں جو لوگوں کے لڑائی جھگڑے ختم کرتے ہیں۔ ليكن وہ کسی ظالم کو زبردستی مجبور نہیں کر سکتے، اگرچہ وہ منت سماجت بھی  کرتے ہیں اور ان کے پاس بار بار جاتے بھی ہیں۔ ہاں اگر بات تھانے تک پہنچ جائے تو وہ مظلوم کا ساتھ دیتے ہیں۔ دوشخیل سے تقریباً دس کلو میٹر کے فاصلے پرایک تھانہ بھی موجود ہے۔

ہمارےگاؤں باغ  ’’مین دوشخیل‘‘ میں شرائط جمعہ مفقود تھیں لیکن عرصہ دراز سے سے نماز جمعہ  ادا کیا جا رہا ہے، مفاسد کثیرہ کے رونما ہونے  کی وجہ سے اس کو برقرار رکھا گیا جبکہ اب ایک دو شرائط کے علاوہ باقی شرائط موجود ہیں۔

جبکہ باقی آٹھ محلوں میں جہاں پہلے جمعہ نہیں ہوتا تھا  کرونا وبا کے دوران  ان آٹھ محلوں میں جمعہ کی نماز شروع کی گئی۔حالانکہ کرونا کے دوران بھی سیکیورٹی فورسز کی طرف سے احتیاطی تدابیر کو اختیار کرتے ہوئے جامع مسجد میں آنے جانے اور کسی قسم کی کوئی  خاص ممانعت نہیں تھی۔

اب پوچھنا یہ کہ باغ ’’مین دوشخیل‘‘ (جہاں عرصہ دراز سے جمعہ جاری ہے اس میں) جمعہ پڑھنے کا کیا حکم ہے؟  اسی طرح آٹھ محلوں میں جہاں پہلے جمعہ نہیں ہوتا تھا، ابھی کرونا وبا کے دنوں میں وہاں جمعہ کی نماز شروع کی گئی، وہاں پر جمعہ کی نماز پڑھنا کیسا ہے؟

نوٹ: یہ تمام معلومات سائل نےعلاقہ کے سمجھدار اور معتبر لوگوں سے معلوم کر  کے فون پر فراہم کی ہیں خصوصاً ‘’مین دوشخیل‘‘ اور اس کے آٹھ محلوں کے بارے میں کہ یہ آٹھ محلے ’’دوشخیل‘‘ ہی کے محلے ہیں، الگ الگ آبادیاں نہیں۔ نیز یہ محلے تھوڑے تھوڑے (ایک سے ڈیڑھ کلو میٹرکے) فاصلے سے ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں ‘’مین دوشخیل‘‘  اپنی آبادی اور سہولیات کے لحاظ سے  بڑی بستی کے  حکم میں ہے۔ لہذا وہاں جمعہ کی نماز درست ہے۔ اور سائل کےبیان کےمطابق ‘’مین دوشخیل‘‘ کے علاوہ دوسری آٹھ آبادیاں بھی چونکہ دوشخیل کے ہی محلے سمجھی جاتی ہیں اس لیے ان محلوں میں بھی جمعہ کی نماز قائم کرنا درست ہے، تاہم بغیر کسی تنازعے کے  اگر ایک جگہ ہی جمعہ کی نماز ہو سکے تو ترجیح اسی کو دی جائے کیونکہ جمعہ کو جمعہ کہتے ہی اس وجہ سے  ہیں کہ وہ دیگر جماعتوں کو جمع کرنے والا ہے۔

امدادالفتاوی جدیدمطول(3/103)میں ہے:

سوال:  ایک گاؤں جس کی آبادی قریب ایک ہزار آدمی کے ہے اوراس کے اتنے قریب ایک دوسرا گاؤں ہے کہ اس بستی کی اذان کی آواز اس گاؤں میں جاتی ہے اوراس گاؤں اور دوسرے گاؤں کو ملا کرآبادی قریب چار پانچ ہزار کے آدمی ہیں بلکہ زائد ہوں لیکن رقبہ وڈاکخانہ بعض بستی کا علیحدہ ہے اور بعض گاؤں میں کافر بستے ہیں مسلمان نہیں ہیں ان سب تقادیر پر جمعہ وعیدین ہر گاؤں والے الگ الگ پڑھ سکتے ہیں یانہیں ۔ اس کے جواز کا شبہ فقہاء کے ایک جزئی سے ہوتا ہے فقہاء نے لکھا ہے کہ اگرکوئی مسافر دو گاؤں میں اقامت کی نیت کرلے اور دونوں گاؤں اتنے قریب ہوں کہ ایک گاؤں کی اذان کی آواز دوسرے گاؤں میں جاتی ہے تو وہ مسافر حد قصر سے خارج ہوجائے گا مثلا ایک گاؤں میں دس یوم کی اقامت کی نیت کی اور دوسرے گاؤں میں پانچ دن کی لیکن چونکہ یہ دونوں قریب بہت ہیں کہ اذان کی آواز جاتی ہے اس لئے اس پر قصر جائز نہ ہوگا۔ تو اس جزئی سے معلوم ہوتا ہے کہ فقہاء نے دونوں گاؤں کو متحد قرار دیا ہے تو باب قصرمیں متحد قرار دیکر اس پر قصرکو ناجائز کیا، اسی طرح باب جمعہ میں بھی متحد قرار دیاجاوے۔ اگر یہاں پر قرار نہ دیا جاوے تو دونوں میں مابہ الفرق کیا ہے۔اور بہشتی گوہر میں لکھا ہے کہ جس گاؤں کی آبادی تین یا چار ہزار ہووہاں جمعہ جائز ہے ان دونوں تردیدوں میں بہت بڑافرق ہے تو اگرصرف تین ہزار آبادی میں جمعہ جائز ہے تو چار ہزار کی قید کیسی۔ اوراگرکسی گاؤں میں صرف تین ہزار کی آبادی ہو اور حوائج ضروریہ کی چیزیں نہیں ملتیں تو کیا اس گاؤں میں جمعہ وغیرہ جائز ہوگا اور اگرکوئی گاؤں ایسا ہو کہ وہاں تمام حوائج ضروریہ کی چیزیں ملتی ہیں لیکن آبادی تین ہزار سے کم ہے تو وہاں بھی جمعہ جائز ہوگا تو رفع حوائج اور تین ہزار آبادی دونوں شرط ہیں یا أحدہما لاعلی التعیین۔ جواب مع حوالہ کتب تحریرہو۔ فقط؟

جواب : قصر وعدم قصر کامدار تو بالا تفاق اتحاد موضعین پر ہے اور وجوب جمعہ و عدم وجوب کے مدار میں اختلاف ہے بعض اقوال میں اتحاد موضعین پر ہے اور سماع اذان وعدم سماع کا اس میں کوئی دخل نہیں جس کے کلام سے اس کے ساتھ تحدید مفہوم ہو تی ہو مقصود اس سے محض تمثیل کے طورپر امارۃ کا بیان کرنا ہے اور بعض اقوال میں عدم لحوق مشقت پر چنانچہ روایات ذیل شاہد ہیں ۔

في الدرالمختار: باب صلوةالمسافر۔ أوکان احدھما تبعاً للاٰخربحیث تجب الجمعة علی ساکنه للاتحاد حکماً، وفي رد المحتار: قوله : أو کان أحدھما تبعاً للاٰخرکالقرية التي قربت من المصر بحیث یسمع النداء علی ما یأتی في الجمعة وفي البحرلوکان الموضعان من مصر واحد أوقرية واحدة فإنها صحیحة لأنهما متحدان حکما ألاتری أنه لوخرج إليه مسافرًا لم یقصراه ج۱ص۸۴۴(۱)

وفي الدر المختار: باب صلوة الجمعة،  وأما المنفصل عنه(ای عن المصر) فإن کان یسمع النداء تجب عليه عند محمد وبه یفتی کذا في الملتقی وقدمنا عن الولوالجية تقدیره بفرسخ ورجح في البحر اعتبار عوده لبیته بلاکلفة.وفي رد المحتار: وصحح في مواهب الرحمن قول ابی یوسف بوجوبها علی من کان داخل حد الإقامة أي الذی من فارقه یصیر مسافراً وإذا  وصل إليه یصیر مقیماً وعلله في شرحه المسمی بالبرهان بأن وجوبها مختص باهل المصروالخارج عن هذاالحد لیس اهله وفيه بعد أسطرعن الخانية والمقیم في موضع من أطراف المصر إن کان بینه وبین عمران المصرفرجة من مزارع لاجمعة عليه وإن بلغه النداء الخ۔  ثم قال: بعد تصحیح هذا القول وترجیحه وینبغی تقیید مافي الخانية والتتارخانية بما إذا لم یکن في فناء المصر لما مرانها تصح إقامتها في الفناء ولومنفصلاً بمزارع فإذا صحت في الفناء لأنه ملحق بالمصریجب علی من کان فيه أن یصليها لأنه من اهل المصرکما یعلم من تعلیل البرهان ج۱ ص۸۵۲۔ (۱)

پس قول اول پر ان دونوں موضعوں کو دیکھا جاوے گا کہ عرفاً دونوں مستقل سمجھے جاتے ہیں یا متحد؟ پہلی صورت میں تو عدم صحت جمعہ ظاہر ہے اور دوسری صورت میں صرف اتحادکافی نہیں غایۃ ما فی الباب دونوں ملکرایک قریہ ہوجاوے گا مگر جس قریہ کبیرہ میں جمعہ کو جائز کہاگیا ہے اس کی تفسیر التي فیہا أسواق سے کی گئی ہے۔ کما فی ردالمحتار الجلد الاول جس کا حاصل یہ ہے کہ صورت اس کی قصبات کی سی ہو اگریہ شان ہو تو جمعہ درصورت اتحاد ہما عرفاً جائز ہو جاوے گا والا فلا اور قول ثانی پر یعنی جبکہ مدار وجوب جمعہ کا عدم لحوق مشقت پر ہو وجوب جمعہ کا دونوں موضعوں کے اتحاد کو مستلزم نہ ہونا اور بھی ظاہر ہے کیونکہ اس تقدیر پر جمعہ من آواہ اللیل پر واجب ہے اوریقیناً وہ موضع مصر سے متحد نہیں اور خود وہاں جمعہ جائز نہیں اور بہشتی گوہر اصل میں کتاب علم الفقہ کا ملخص ہے اگریہ مسئلہ اس میں ہے تو مجھ کو یاد نہیں کہ تلخیص کے وقت اس پر نظر پڑی ہے یا نہیں ۔ بہرحال اس میں جوکچھ لکھا ہو اس کو اس وقت کی تحریر پر منطبق کرنا چاہئے اگر انطباق نہ ہو تو میری رائے یہی ہے جو اس وقت لکھ رہا ہوں کہ کوئی تعداد خاص تحدید کیلئے نہیں بلکہ امارۃ ہے اور اصل مدار مصر یا قصبہ یا قریہ کبیرہ بالمعنی المذکور کا ہوتا ہے۔ ۱۸؍ رمضان ۱۳۲۷؁ھ بعد تحریر جواب ہذا ایک ثقہ مشاہد سے معلوم ہوا کہ جن قریوں کی نسبت سوال ہے وہ باہم اتنے متقارب نہیں ہیں کہ ان کو متصل ومتحد کہہ سکیں تو جواب اور بھی اظہر ہے کہ پھر احتمال ہی صحت جمعہ کا نہیں ۔

محیط برہانی : (2/ 152) میں ہے:وفي تسميتها جمعة دليل على أن المصر شرط فإنما تسمى جمعة؛ لأنها جامعة للجماعات حتى وجب بنداء الجماعات يوم الجمعة.

بدائع الصنائع (1/ 269)يسمى جمعة لاجتماع الجماعات فيها فاقتضى أن تكون الجماعات كلها مأذونين بالحضور إذنا عاما تحقيقا لمعنى الاسم.

فتاویٰ رحیمیہ: (6/105)

(سوال  ۷۸)میرے قصبہ میں  آٹھ محلے اور آٹھ مسجدیں  ہیں  ۔ چھ مسجد والے شاہی مسجد میں  جمعہ پڑھتے ہیں۔اور دو محلے والے اپنے محلوں  کی مسجد میں  ، پوچھنے پر وہ کہتے ہیں  کہ شاہی مسجد میں  نماز پڑھنے سے محلہ کی مسجد خالی رہتی ہے ۔جس سے احترام مسجد میں  خلل آتا ہے تو دریافت طلب امر یہ ہے کہ جمعہ کو محلہ کی مسجد بند کر کے شاہی مسجد میں  نماز پڑھے تو اس محلہ کی مسجد کے احترام میں  خلل یا نقص واقع ہوتا ہے یا نہیں ؟

(الجواب)مردوں  کو نماز پنجگانہ کے واسطے مسجد میں  حاضر ہونا تاکیدی امر ہے ۔محلہ کی مسجد بحیثیت ثواب کے شاہی مسجد کے مثل ہے بدون شرعی عذر کے اس کو چھوڑنے کی اجازت نہیں  چاہے ایک ہی نماز ہو ۔مگر جمعہ کی نماز محلہ کی مسجد بند کر کے جامع مسجد میں  پڑھنے کاحکم ہے ۔ نمازی زیادہ ہوں  ، ایک مسجد میں  وسعت نہ ہو یا جامع مسجد کافی دور ہو جہاں  پہنچنے میں  دقت ہوتی ہو تو دوسری مسجد میں  جمعہ کا انتظام کیا جاسکتا ہے ۔بلاعذر نماز جمعہ محلہ در محلہ پڑھنے میں  شرعی مصلحت اور مقصد فوت ہوجاتا ہے اور اسلامی شان وشوکت ختم ہوجاتی ہے نماز جمعہ کو جامعۃ الجماعات کہا جاتا ہے جس کا مطلب یہی ہے کہ محلوں  کی مسجدیں بند کر دی جائیں  اور ان سب کی جماعتیں  یکجا جامع مسجد یں  ہوں  لوگ محلہ کی مسجدیں  بند کر کی نماز جمعہ شاہی مسجد میں  ادا کریں  ۔۔۔۔۔ الخ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved