• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر

گاؤں میں جمعہ کی نماز ادا کرنا

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اور مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہماری بستی (وانڈا امیر، لکی مروت) جس کی آبادی اور دیگر ضروریات زندگی کی تفصیل درجہ ذیل ہے، میں جمعہ کا کیا حکم ہے؟

۱۔ کل آبادی: 4600    ۲۔ مساجد: 15       ۳۔ دکانیں: 20      ۴۔ بھٹہ خشت: 26 ۵۔ ڈیزل اینڈ پٹروال ایجنسی: 1   ۶۔ ہائیر سیکنڈری سکول (FA, Fsc): 1   ۷۔ہائی سکول: 1      ۸۔ مڈل سکول: 1     ۹، بوائیز پرائمری سکول: 2        ۱۰۔ گرلز پرائمری سکول: 2       ۱۱۔ پبلک سکول: 1   ۱۲۔ اسلامی درس گاہیں: 3 ۱۳۔ چکی مشین: 4    ۱۴۔ ٹیوب ویل: 4    ۱۵۔ قبرستان: 3 ۱۶۔میڈیکل سٹور: 2       ۱۷۔ الیکٹرک سٹور: 1            ۱۸۔ موبی لنک پوسٹر: 1  ۱۹۔ کپڑے کی دکان: 2           ۲۰۔ مستند علماء کرام: 30  ۲۱۔ حفاظ کرام: 220        ۲۲۔ ویلڈنگ کی دکان: 1        ۲۳۔ بلڈر، کار پینٹر وغیرہ موجود ہیں ۲۴۔ موبائل شاپ: 1     ۲۵۔ آٹو میکنیک سٹور: 2         ۲۶۔ منیاری سٹور: 1

مزید وضاحت کچھ یوں ہے کہ

1۔ دکانیں مسلسل نہیں یعنی مارکیٹ کی صورت میں نہیں۔ بلکہ صاحب دکان کے گھر سے متصل بیٹھک میں ہے۔

2۔ شہر سے بستی تک 10 کلو میٹر پکی سڑک ہے۔ جبکہ بستی کے اندر کوئی گلی پختہ نہیں۔

3۔ منڈی یا بازار کی طرح مستقل آنے جانے والے تاجر نہیں۔ ہا ں بھٹہ خشت کا مال لینے کے لیے تاجر دور دراز کے علاقوں سے ہماری بستی کا رخ کرتے  ہیں۔

4۔ چند افراد کی پنچائت کی کمیٹی ہے جو مختلف تنازعات میں صلح صفائی کراتی ہیں۔

5۔ مزید یہ کہ تحقیقات جمعہ فتاویٰ جات یا درسیات میں اکابر سے جو کچھ منقول ہے مثلاً:

i۔ تعداد کے بارے میں 1300، 1500، 2000، 3000 تعداد پر جمعہ کے جواز کے جوابات دیے ہیں۔ ممکن ہے کہ اس قسم کی آبادی عام شاہراہوں پر ہوں، یا انہوں نے مشاہدہ کیا ہو، عموماً شاہراہوں پر چھوٹی آبادی پر بھی کیفیت  بلدیت عیاں ہوتی ہے۔

ii۔ ضروریات زندگی کا میسر ہونا۔

iii۔ عرفابڑی بستی کا ہونا کیفیت بلدیت کا ہونا۔

اب ہماری اس بستی میں جس کی آبادی کی تعداد اوپر مذکور ہے، زندگی کی تمام تر سہولیات و ضروریات میسر ہیں جیسا کہ اوپر مذکور ہے۔ آس پاس کی بستیوں میں عرفاً یہ بڑی بستی تصور کی جاتی ہے۔

جمعہ کے بارے میں آپ حضرات سے مدلل و مفصل اور تسلی بخش جواب مطلوب ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

فقہ حنفی کی رُو سے جمعہ صحیح ہونے کے لیے منجملہ دیگر شرائط کے ایک شرط یہ بھی ہے کہ جہاں جمعہ پڑھا جا رہا ہے وہ جگہ شہر یا بڑی بستی ہو یا ان دونوں کی فناء ہو۔

البتہ شہر یا بڑی بستی کی حد بندی میں خود حنفیہ کے متعدد اقوال ہیں جن کی تفصیل "بدائع الصنائع”   میں موجود ہے۔ ان میں سے دو قول زیادہ مشہور اور مفتیٰ بہ ہیں:

1۔ ہر وہ بستی جس میں مختلف گلی محلے ہوں اور اس آبادی میں ایسا بازار ہو جس میں تیس چالیس دکانیں متصل اور مستقل ہوں اور ان دکانوں میں روز مرہ کی ضروریات دستیاب ہوں۔

2۔ ہر وہ بستی کہ جس کی  (عام معمول کے مطابق) سب سے بڑی مسجد میں اس بستی کے بالغ مرد نہ سما سکیں۔

نوٹ :  عام معمول کے مطابق بڑی مسجد ہونے کی قید اس لیے لگائی کہ اگر غیر معمولی بڑی مسجد مراد لی جائے تو پھر شاید مکہ

مکرمہ اور مدینہ  منورہ زادهما الله شرفا بھی اس اس قول کے مطابق مصر کی تعریف میں داخل نہ ہوں گے، کیونکہ مسجد نبوی میں مدینہ کے بالغ مرد ، اور مسجد حرام میں مکہ کے بالغ مردبآسانی سما سکتے ہیں۔ حالانکہ ان دونوں شہروں میں جب سے جمعہ شروع ہوا ہے اس وقت سے لے کر آج تک کوئی بھی عدمِ جواز کا قائل نہیں رہا۔

چنانچہ فتاویٰ شامی میں ہے:

(و يشترط لصحتها) سبعة أشياء: الأول المصر و هو ما لا يسع أكبر مساجده أهله المكلفين بها و عليه فتوی أكثر الفقهاء …. لظهور التواني في الأحكام. و ظاهر المذهب أنه كل موضع له أمير و قاض يقدر علی إقامةالحدود. و في الرد قوله (و عليه فتوی أكثر الفقهاء الخ) و قال أبو شجاع هذا أحسن ما قيل فيه و في الولوالجية و هو صحيح … و عليه مشی في الوقاية و متن المختار و شرحه و قدمه في متن الدرر علی القول الآخر و ظاهره ترجيحه و أيده صدر الشريعة بقوله لظهور التواني في أحكام الشرع سيما في إقامة الحدود في الأمصار. قوله (و ظاهر المذهب الخ) قال في شرح المنية: و الحد الصحيح ما اختاره صاحب الهداية أنه الذي له أمير و قاض ينفذ الأحكام و يقيم الحدود … عن أبي حنيفة رحمه الله أنه بلدة كبيرة فيها سكك و أسواق و لها رساتيق و فيها وال يقدر علی إنصاف المظلوم من الظالم بحشمته  … ان قال و هذا هو الأصح . (3/ 6)

اگرچہ ان دونوں قولوں پر متعدد فقہاء کرام کے فتوے ہیں لیکن پہلا قول چونکہ ظاہر المذہب ہے اس لیے اصل اور راجح تو یہی ہے اور حتی الامکان اسی کو اختیار کیا جائے۔ البتہ اگر کوئی بڑی بستی ایسی ہو کہ جس میں گلی محلے تو ہوں اور پندرہ بیس دکانیں بھی ہوں جن میں روز مرہ کی ضرورت کی اشیاء بھی دستیاب ہوں، لیکن یہ دکانیں متصل اور مسلسل نہ ہوں بلکہ متفرق ہوں (جیسا کہ سوال میں ذکر کردہ بستی کی صورتحال ہے) اور اس بستی کی (عام معمول کے مطابق) بڑی مسجد میں اس بستی کے تمام بالغ مرد بھی نہ سما سکیں تو ایسی صورت حال میں دوسرے قول پر عمل کر لینا بھی فقہ حنفی کی رُو سے درست ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved