• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

گاؤں میں جمعہ جاری کرنا

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان کرام مسئلہ ذیل میں کہ ایک گاؤں میں اس گاؤں سے ملحقہ چند گاؤں کے لوگوں کے اتفاق رائے سے جمعہ جاری ہوا۔ اور بعد میں کسی اختلاف کی بناء پر اس گاؤں میں جمعہ بند ہو گیا، اور ایک دوسرے گاؤں میں جمعہ ادا کرنا شروع کر دیا گیا۔ کافی عرصہ تک دوسرے گاؤں کے لوگ جمعہ کے لیے آتے رہے، بعد میں سستی وکاہلی کی وجہ سے انہوں نے آنا چھوڑ دیا، اور اس گاؤں کی آبادی تقریباً 70 گھرانوں اور تقریباً 400 افراد بشمول عورتوں اور بچوں کے ہے۔ اور اس گاؤں میں ضروریات زندگی  مثلاً ڈاکخانہ، ہسپتال، تھانہ، قاضی، بازار، دکانیں، شارع عام، اسکول وکالج وغیرہ سوائے ایک پرائمری اسکول کے کوئی چیز موجود نہیں ہے، اور بازار سے تقریباً گیارہ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے، اس گاؤں کے مختلف محلوں میں پانچ مسجدیں ہیں، اور ایک جامع مسجد ہے، ان سب میں بشمول جامع مسجد کے نماز پنجگانہ باجماعت کا اہتمام نہیں، اور جمعہ کے نمازیوں کی تعداد 40 کے لگ بھگ ہے، اور اس گاؤں کے اطراف میں واقع گاؤں کا فاصلہ اوسطاً تقریباً تین کلومیٹر ہے، اور اب دو گاؤں میں جمعہ بھی جاری ہو چکا ہے باوجودیکہ وہ شرائط میں مذکورہ گاؤں  ہی کے مثل ہیں، اور گاؤں مذکور میں جمعہ عرصہ چالیس سے ادا کیا جا رہا ہے۔ اب جمعہ کے مسئلہ میں دو گروہ بن گئے ہیں، ایک گروہ جمعہ کے جواز کا قائل ہے، ان کی دلیل یہ ہے کہ ہم عرصہ چالیس سال سے جمعہ ادا کر رہے ہیں، اور اب تو ساتھ کے دو گاؤں میں بھی جمعہ جاری ہو چکا ہے، اور وہ اقامتِ جمعہ پر مصر ہیں، اور دوسرا گروہ عدم جواز کا قائل ہے، ان کی دلیل یہ ہے کہ یہاں شرائط مفقود ہیں۔

اب آپ بتائیں کہ مسئلہ مذکورہ بالا کی صورت میں جمعہ کو جاری رکھا جائے  یا بند کیا جائے، اور اقامت جمعہ کے جواز کا کوئی پہلو باقی ہے یا نہ، اگر نہیں تو پھر نماز  عیدین اور نماز جمعہ اور گذشتہ ادا کی گئی نمازوں کے متعلق اور آئندہ کے لیے قرآن و حدیث اور فقہ حنفی کی روشنی میں مدلل اور مفصل جواب دے کر عند اللہ ماجور ہوں۔ اور کیا صورت مسئولہ میں جمعہ زبردستی  بند کیا جائے گا یا نہیں؟

وضاحت مطلوب ہے: 1: کیا سب سے بڑی مسجد میں سارے بالغ مرد سما جاتے ہیں یا نہیں؟

2: کتنی دکانیں ہیں، اور کس کس چیز کی ہیں، دوائی وعلاج کے لیے کوئی ڈاکٹر، ڈسپنسری وغیرہ ہے یا نہیں؟

جواب وضاحت:     1: جی سما جاتے ہیں۔

2: باقاعدہ کوئی دکان نہیں، دو تین لوگوں نے گھروں کے اندر کچھ تھوڑی بہت چیزیں الماریوں میں رکھی ہوئی ہیں، اس پورے گاؤں میں کوئی ڈاکٹر نہیں، تمام روزہ مرہ کی ضروریات تحصیل والے بازار جو کہ گاؤں سے گیارہ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے  پوری کی جاتی ہیں، گاؤں میں پکی روڈ، پرائمری سکول اور مدرسہ ہے۔ بس

مزید وضاحت:

گاؤں میں تقریباً 100 بالغ مرد ہیں۔ اور 100  کے  قریب گھر ہیں،  تقریباً دس بارہ گھروں پر مشتمل  مختلف محلے ہیں،

تمام محلے متصل نہیں، کچھ محلوں کا آپس میں فاصلہ پیدل پانچ منٹ کا اور کسی کا اس سے کم وبیش، اور بعض جگہ دو محلوں کے درمیان پیدل پندرہ  سے بیس منٹ کا فاصلہ بھی ہے۔ گھر بھی  کچھ متصل بنے ہوئے ہیں اور کچھ گھر پندرہ بیس فٹ کے فاصلے پر الگ الگ بھی ہیں۔

ہمارے یونین کونسل کے تحت دس گاؤں ہیں جن میں چار گاؤں ایسے ہیں جن میں تقریباً دو گھر متصل بنے ہوئے ہیں، باقی گاؤں کی صورت وہی ہے جو میں نے اپنے گاؤں کی بتا دی کہ دس پندرہ گھروں پر مشتمل مختلف محلے ہیں، اور وہ بھی فاصلے فاصلے پر۔ ہمارے گاؤں میں ایک محلہ ایسا ہے جس میں غالب گمان کے مطابق بالغ مردوں کی تعداد چالیس ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ آبادی میں حنفیہ کے قول کے مطابق جمعہ درست نہیں البتہ دیگر ائمہ کے نزدیک جہاں چالیس بالغ مرد ہوں وہاں جمعہ جائز ہے۔  اور آجکل  کے حالات میں بالخصوص جس جگہ جمعہ وعیدین شروع ہو چکے ہیں دیگر ائمہ کے قول کو لینے کی گنجائش ہے۔ اس لیے جمعہ کو بند کرنے کی ضرورت نہیں، اسے  جاری رکھ سکتے ہیں اور ابھی تک جو عیدین اور جمعہ کی نمازیں پڑھ چکے ہیں وہ بھی درست ہیں انہیں لوٹانے کی ضرورت نہیں۔

مغنی لابن قدامہ: (2/207) میں ہے:

(مسألة) قال (وإذا لم يكن في القرية أربعون رجلا عقلاء لم تجب عليهم الجمعة) وجملته ان الجمعة إنما تجب بسبعة شرائط (احداها) أن تكون في قرية و (الثاني) ان يكونوا أربعين و (الثالث) الذكورية و (الرابع) البلوغ و (الخامس) العقل و (السادس) الاسلام و (السابع) الاستيطان وهذا قول أكثر أهل العلم، فاما القرية فيعتبر ان تكون مبنية بما جرت العادة ببنائها به من حجر أو طين أو لبن أو قصب أو شجر ونحوه فأما أهل الخيام وبيوت الشعر والحركات فلا جمعة عليهم ولا تصح.  لأن ذلك لا ينصب للاستيطان غالبا وكذلك كانت قبائل العرب حول المدينة فلم يقيموا جمعة ولا أمرهم بها النبي صلى الله عليه و سلم ولو كان ذلك يم يخف ولم يترك نقله مع كثرتهم وعموم البلوى به لكن إن كانوا مقيمين بموضع يسمعون النداء لزمهم السعي إليها كأهل القرية الصغيرة إلى جانب المصر ذكره القاضي ويشترط في القرية أيضا أن تكون مجتمعة البناء بما جرت العادة في القرية الواحدة فإن كانت متفرقة المنازل تفرقا لم تجر العادة به لم تجب عليهم الجمعة إلا أن يجتمع منها ما يسكنه أربعون فتجب الجمعة بهم ويتبعهم الباقون ولا يشترط اتصال البنيان بعضه ببعض وحكي عن الشافعي أنه شرط ولا يصح لأن القرية المتقاربة قرية مبنية على ما جرت به عادة القرى فأشبهت المتصلة.

الام  (1/350) میں ہے:

( قال الشافعي ) فإذا كان من أهل القرية أربعون رجلا والقرية البناء والحجارة واللبن والسقف والجرائد والشجر لأن هذا بناء كله وتكون بيوتها مجتمعة ويكون أهلها لا يظعنون عنها شتاء ولا صيفا إلا ظعن حاجة مثل ظعن أهل القرى وتكون بيوتها مجتمعة اجتماع بيوت القرى فإن لم تكن مجتمعة فليسوا أهل قرية ولا يجمعون ويتمون إذا كانوا أربعين رجلا حر ا بالغا فإذا كانوا هكذا رأيت والله تعالى أعلم إن عليهم الجمعة فإذا صلوا الجمعة أجزأتهم.

الحاوی فی فقہ الشافعي (2/ 407)

المكان الذي تنعقد فيه الجمعة

 مسألة : قال الشافعي ، رضي الله عنه : ” وإن كانت قرية مجتمعة البناء والمنازل وكان أهلها لا يظعنون عنها شتاء ولا صيفا إلا ظعن حاجة وكان أهلها أربعين رجلا حرا بالغا غير مغلوب على عقله ، وجبت عليهم الجمعة واحتج بما لا يثبته أهل الحديث أن النبي صلى الله عليه وسلم حين قدم المدينة جمع بأربعين رجلا وعن عبيد الله بن عبد الله أنه قال : كل قرية فيها أربعون رجلا فعليهم الجمعة ومثله عن عمر بن عبد العزيز . قال الماوردي : وهذا كما قال . هذه المسألة تشتمل على فصلين: أحدهما : في المكان الذي تنعقد فيه الجمعة ، والثاني : في العدد الذي تنعقد به الجمعة . فأما المكان : فمذهبنا أنها تنعقد في الأمصار ، والقرى إذا كانت القرية مجتمعة البناء ، وكان لها عدد تنعقد به الجمعة، وهم أربعون لا يظعنون عنها شتاء ولا صيفا إلا ظعن حاجة ،

وبه قال من الصحابة عمر وابن عمر وابن عباس ، ومن الفقهاء مالك ، وأحمد بن حنبل .

وقال أبو حنيفة : لا تجب الجمعة على أهل القرى ، ولا تصح إقامة الجمعة فيها ، إلا أن يكون مصرا جامعا ، فيلزمهم إقامتها .

وحد المصر عنده : أن يكون فيه إمام يقيم الحدود ، وقاض ينفذ الأحكام ، وجامع ومنبر ، وبه قال علي بن أبي طالب ، رضي الله عنه ،  وبه قال علي بن أبي طالب ، رضي الله عنه.

کفایت المفتی (3/238) میں ہے:

(سوال )   موضع امو کونہ جس کی آبادی میں چونتیس گھر اور اکاون مرد مکلف بستے ہیں ایضاً موضع بتاپور کہ موضع اموکونہ  سے تخمیناً پانسو ہاتھ فاصلے پر ہے اس میں تیس گھر ہیں اور ستاون مرد مکلف بستے ہیں ان سب آدمیوں کا پیشہ کاشتکاری ہے اور موسم برسات میں ہر موضع کے چاروں طرف پانی سے سیلاب ہوجاتا ہے جو بدون کشتی کے آمد و رفت دشوار ہے ہر موضع کے چاروں طرف زراعت اور تین طرف ندی بھی ہے اور دونوں موضعوں کے درمیان جو فاصلہ ہے چراگاہ ہے موسم برسات میں  وہ بھی دو ڈھائی ہاتھ پانی نیچے  پڑتا ہے اس آبادی میں کوئی بازار وغیرہ نہیں ہے اب علی الانفراد دونوں موضعوں میں جمعہ قائم کرنا اور درمیان کی چراگاہ میں علی الاجتماع عیدگاہ بناکے نماز  عید پڑھنا جائز ہے یا نہیں ؟

(جواب ۳۶۷)  ان دونوں   موضعوں میں جمعہ کی نماز حنفی مذہب کے موافق قائم نہ کرنا چاہئیے لیکن اگر قدیم الایام سے ان میں جمعہ قائم ہو تو اسے بند بھی نہ کرنا چاہئیے کہ دوسرے ائمہ کے مذہب کے موافق جمعہ  ہوجاتا ہے۔

کفایت المفتی (3/248) میں ہے:

سوال: ایک موضع میں تقریباً 30 آدمی مصلی ہیں اور ایک مسجد ہے ہفتہ میں دو بار بڑی بازار لگتی ہے، سامان ضروری مثلاً کفن وغیرہ ملتا ہے لہذا مصلیان نماز جمعہ بھی اس موضوع میں ادا کرتے ہیں اور بچوں کی تعلیم کے لیے ایک قاری صاحب بھی مقرر ہیں۔ اب اس موضع میں شرعاً جمعہ جائز ہے یا نہیں؟

جواب: اگر نماز جمعہ وہاں عرصہ سے قائم ہے تو اب اس کو بند کرنے میں مذہبی و دینی فتنہ ہے اس لیے اس کو موقوف کرنا درست نہیں بلکہ اس مسئلہ میں امام شافعی رحمہ اللہ کے قول یا امام مالک رحمہ اللہ کے قو ل کے موافق عمل کر لینا جائز ہے۔

دوسری جگہ کفایت المفتی (3/249) میں ہے:

سوال: بستیوں میں جمعہ پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز ہے تو فقہاء کرام رحمہم اللہ کے مقرر کردہ شرائط کا کیا جواب ہے اور بعد ادائے جمعہ احتیاطی ادا کرنا کیسا ہے؟

الجواب: چھوٹی بستیوں میں نماز جمعہ حنفیہ کے نزدیک نہیں ہے لیکن انہوں نے جمعہ کی اہمیت کو قائم رکھتے ہوئے مصر کی تعریف میں یہاں تک تنزل کیا کہ ’’ما لا يسع أكبر مساجده أهله المكلفين بها‘‘ تک لے آئے حالانکہ ان کے اپنے اقرار ’’هذا يصدق علي كثير من القرى‘‘  سے یہ تعریف بہت سے قریٰ پر صادق آتی ہے پس نماز جمعہ کی اہمیت اور مصالح مہمہ عالیہ اسلامیہ کا مقتضیٰ یہ ہے کہ نماز جمعہ کو ترک نہ کیا جائے اگرچہ امام شافعی رحمہ اللہ کے مسلک پر عمل کے ہی ضمن میں ہو۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved