• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

گاوں میں جمعہ جاری کرنے کاحکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال یہ ہے بندہ اپنی بستی میں جمعہ پڑھانے کے بارے میں کچھ رہنمائی لینا چاہتا ہے ،قرآن و حدیث کی روشنی میں ہماری رہنمائی فرمائیں۔

ہماری بستی میں تقریبا سوگھر ہیں اور تقریبا دو سو پچاس بالغ، عاقل افراد ہوں گے،اور شروع سے ہمارے گاؤں میں بریلویوں کی مسجد تھی ،جہاں جمعہ اور عیدین شروع سے ہی ہو رہی ہیں ،تو بڑے بھائی کا تبلیغی جماعت میں وقت لگنے کی برکت سے آج سے بیس سال قبل مسجدبنائی، جس کا نام  مکتبہ فکر مسلک دیوبند اور ابتدا میں تقریبا چھ ماہ جمعہ پڑھایا اور آج تک متواتر عیدین پڑھا رہےہیں اور ان دنوں جماعت رائیونڈ کی تشکیل ہوئی جس میں تین مفتیان کرام تھے، انہوں نے فتوے کے بارے میں کچھ رہنمائی فرمائی اور آج سے 18 سال قبل حضرت استاد جی مفتی عبدالواحد صاحب (در التقوی والے )سے فتوی لیا تو انہوں نے جمعہ سے منع فرما دیا تو ہم جمعہ نہیں پڑھا رہے  ہیں اور اب تو  پہلے کی نسبت آبادی کا لونی ٹاون وغیرہ  کا سلسلہ بن گیا ہے اور ساتھ ہی چار کلو میٹر کی مسافت پر ایک قصبہ ہے ،وہاں ضروریات زندگی موجود ہیں۔ مسلک کا نقصان بھی ہو رہا ہے،اور عیدین اب تک متواتر پڑھا رہے ہیں۔ تو اب جمعہ اور عیدین کے لیے کیا حکم ہے؟ وضاحت مطلوب ہے:

1.گاؤں میں اشیاء ضرورت کتنی میسر ہیں؟

  1. 2. گاؤں میں کتنی مساجد ہیں؟
  2. 3. اگر بڑی مسجد میں گاؤں کے سب بالغ مرد آجائیں تو وہ مسجد میں پورے آجائیں گے؟

جواب وضاحت:

  1. 1. دکانیں ہیں کھانے پینے کی اشیاء کی حد تک.
  2. 2. مسجدیں ہیں ایک ہماری ایک بریلویوں کی.
  3. 3. مسجد تنگ پڑ جائے گی.

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

حنفیہ کے نزدیک مختار قول کے مطابق مذکورہ آبادی گاؤں ہے، قصبہ یا شہر نہیں ہے ،اس لیے اس میں جمعہ درست نہیں ہے، لیکن موجودہ دور میں حالات بہت کچھ تبدیل ہوچکے ہیں، اس لئے بعض حنفیہ کی اس تعریف کوبھی لے سکتے ہیں کہ وہ آبادی جس کی سب سے بڑی مسجد میں آبادی کے تمام مکلف لوگ (یعنی جن پر جمعہ فرض ہوتا ہے وہ)نہ آ سکیں،وہ آبادی قریہ کبیرہ یا شہر شمار ہوتی ہے۔

جیسا کہ کفایت المفتی جلد نمبر 3 صفحہ 241 میں ہے:

قریہ کبیرہ جس پر مصر کی کوئی تعریف بھی صادق آجائے،مثلا( مالایسع اکبرمساجدہ اهله المکلفین بها)اس میں اقامۃ جمعہ جائز ہے۔

یہ بات عجیب ہے کہ جمعہ پڑھنا تو آپ نے مفتی صاحب کے کہنے پر چھوڑ دیا لیکن عیدین اس کے بعد بھی ادا کرتے رہے حالانکہ عید کا اورجمعہ کا ایک ہی حکم ہے۔

فی الشامی:3/3

فی التحفة عن ابی حنیفة انه بلدة کبیرة فیها سکک واسواق وله رساتیق وفیها وال یقدر علی انصاف مظلوم من الظالم بحشمته وعلمه

وایضافیه:3/3

المصر (وهو مالایسع اکبر مساجده اهله المکلفین بها)وعلیه فتوی اکثر فقهاء۔

تبیین الحقائق:1/223

(تجب صلاة العیدین علی من تجب علیه الجمعة بشرائطها)بشرائط الجمعة۔۔۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved