• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

گاؤں میں جمعہ کے وجوب کی ایک صورت

استفتاء

ہمارا گاؤں ناراکبرخان سرکوڑی ضلع لکی مروت میں واقع ہے۔ یہ ایک بڑا گاؤں ہے اور اس کی آبادی پھیلی ہوئی ہے، اس کی آبادی کی مجموعی تعداد 2921  افراد ہیں، اس تعداد میں 22 افراد وہ ہیں جو دوسرے علاقوں سے آکر یہاں کرائے کے گھروں میں آباد ہیں جبکہ اکیس افراد وہ  ہیں جو اس گاؤں سے دوسرے شہروں میں گئے ہوئے ہیں اور کاروبار یا ملازمت کی وجہ سے کئی سالوں سے وہاں اہل و عیال سمیت آباد ہیں۔اسی طرح اس تعداد میں سے 116 افراد وزیرستان کے متاثرین ہیں جو آپریشن کی وجہ سے یہاں آ کر آباد ہوچکے ہیں اور جیسے ہی ان کے علاقے کھلیں گے تو یہ لوگ واپس وزیرستان چلے جائیں گے۔

سرائے فورنگ شہر (جوضلع لکی مروت کی تحصیل ہے)سے دوسرے مختلف علاقوں تک جانے والی سڑک اس گاؤں(ناراکبرخان سرکوڑی) کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہےیعنی گاؤں کی کچھ آبادی سڑک کے ایک طرف اور کچھ آبادی دوسری طرف ہے اور یہ سڑک ضلع لکی مروت اور ضلع بنوں کے درمیان حد فاصل ہے یعنی سڑک کےایک طرف کی آبادی ضلع لکی مروت میں اور دوسری طرف کی آبادی ضلع بنوں میں ہے لیکن عرف میں سارا ایک ہی گاؤں سمجھا جاتا ہے، نام بھی ایک ہے، سرکاری کاغذات میں بھی ایک نام ہے، ضلع لکی مروت کی طرف کی آبادی پرانی ہے ،ضلع بنوں کی طرف کی آبادی نئی ہےلیکن وہاں ابھی تک کوئی مسجد نہیں ہے، سارے لوگ اس پرانی آبادی کی مسجدوں میں آ کر نماز ادا کرتے ہیں۔

اس گاؤں کی روزمرہ کی ضروریات کے اعتبار سے نوعیت یہ ہے کہ اس میں پانچ منفرد د کانیں،جنرل سٹورز ہیں، چار پرائیویٹ علاقائی ڈاکٹروں کے کلینکس اور دوائی کی دکانیں ہیں،چار آٹا مشین، دو پرائمری اسکول، تین اسلامی مدرسے (ایک بنین کا دو بنات کے) اور سات مساجد ہیں،یہ سب کچھ سڑ ک کے ضلع لکی مروت والی طرف پرانی آبادی میں ہے اور اسی طرح اس گاؤں کے دو اپنے قبرستان ہیں،سڑک کی دوسری طرف ضلع بنوں کی طرف جو نئی آبادی ہےاس سڑک کے اس کنارےبازار کی شکل میں دکانیں آباد ہیں (یعنی اس طرف تین مارکیٹیں بنی ہوئی ہیں، ایک مارکیٹ میں بارہ دکانیں ہیں اور دوسری دونوں مارکیٹوں میں چھ چھ دوکانیں ہیں،ان دکانوں میں ضروریات کی تمام چیزیں تقریبا مل جاتی ہیں، اسی طرح یہاں برائلر گوشت، درزی ،کپڑے کی دکان وغیرہ سب کچھ مل جاتا ہے اسکےعلاوہ اس گاؤں میں بڑھائی، مستری اور لوہار سب موجود ہیں لیکن چھوٹا بڑا گوشت، مڈل اور ہائی سکول ،ہسپتال، پولیس چوکی، ڈاکخانہ اور اسی طرح دوسری ضروریات کی بڑی اشیاء میسر نہیں ہیں لیکن اس گاؤں کے دونوں اطراف میں تقریبا ایک ایک کلومیٹر کے فاصلے پر دو پولیس چوکی ہیں لیکن اس گاؤں کے حدود سے باہر ہیں، اسی طرح اس گاؤں سے تقریبا ایک کلومیٹرپر دوسرے گاؤں میں ڈاکخانہ بھی واقع ہے۔

اس گاؤں کے ساتھ متصل دوسرا گاؤں  کوٹکہ سعید خان کے نام سے آباد ہے جو پہلے ایک الگ گاؤں تصور کیا جاتا تھا اور اب متصل ہونے کی وجہ سے اسی گاؤں کا حصہ سمجھا جاتا ہے اور دوسرے علاقوں والے دونوں کو ایک ہی گاؤں گردانتے ہیں،اسی طرح اس گاؤں کی دوسری طرف ایک چھوٹا سا گاؤں آباد ہوا ہے،یہ نئی آبادی اس گاؤں (ناراکبرخان سرکوڑی)سے آدھےکلومیٹرکےفاصلےپرہےاوردرمیان میں کوئی آبادی بھی نہیں ، اس نئے گاؤں کا نام حسن آباد سرکوڑی ہے  اور اس کی آبادی تقریبا دو سو کے لگ بھگ ہے۔دور کے علاقوں والے اس نئے گاؤں کو بھی نارا کبرخان سرکوڑی کا حصہ  اور محلہ سمجھتے ہیں۔

اب جواب طلب امر یہ ہے کہ

  1. اس گاؤں میں جمعہ کی نماز ادا کرنا جائز ہے یا نہیں؟
  2. دوسرا امر یہ ہے کہ کوٹکہ سعید خان اورکوٹکہ حسن آباد شرعا نارا کبرخان سرکوڑی کا حصہ ہوں گے یا الگ الگ گاؤں تصور ہوں گے؟محمد عبداللہ تحسینی ضلع لکی مروت

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1 ۔ مذکورہ گاؤں قریہ کبیرہ کے حکم میں ہے لہذا اس گاؤں میں جمعہ کی نماز ادا کرنا جائز ہے۔

2 ۔کوٹکہ سعید خان تو نارا کبر خان کا حصہ ہوگا  کیونکہ کوٹکہ سعید خان ناراکبر خان کے ساتھ متصل ہے البتہ کوٹکہ حسن آباد ناراکبر خان کا حصہ ہے یا نہیں؟ اس بارے میں یہ تفصیل ہے کہ اگر تو ناراکبر خان کے لوگ اسے ناراکبر خان کا ہی محلہ سمجھتے ہیں تو ناراکبر خان کا حصہ ہوگا اور اس میں بھی جمعہ درست ہوگا ورنہ  نہ وہ ناراکبر خان کا حصہ ہوگا اور نہ اس میں جمعہ درست ہوگا۔

امدادالفتاوی جدیدمطول(3/103)میں ہے:

سوال:  ایک گاؤں جس کی آبادی قریب ایک ہزار آدمی کے ہے اوراس کے اتنے قریب ایک دوسرا گاؤں ہے کہ اس بستی کی اذان کی آواز اس گاؤں میں جاتی ہے اوراس گاؤں اور دوسرے گاؤں کو ملا کرآبادی قریب چار پانچ ہزار کے آدمی ہیں بلکہ زائد ہوں لیکن رقبہ وڈاکخانہ بعض بستی کا علیحدہ ہے اور بعض گاؤں میں کافر بستے ہیں مسلمان نہیں ہیں ان سب تقادیر پر جمعہ وعیدین ہر گاؤں والے الگ الگ پڑھ سکتے ہیں یانہیں ۔ اس کے جواز کا شبہ فقہاء کے ایک جزئی سے ہوتا ہے فقہاء نے لکھا ہے کہ اگرکوئی مسافر دو گاؤں میں اقامت کی نیت کرلے اور دونوں گاؤں اتنے قریب ہوں کہ ایک گاؤں کی اذان کی آواز دوسرے گاؤں میں جاتی ہے تو وہ مسافر حد قصر سے خارج ہوجائے گا مثلا ایک گاؤں میں دس یوم کی اقامت کی نیت کی اور دوسرے گاؤں میں پانچ دن کی لیکن چونکہ یہ دونوں قریب بہت ہیں کہ اذان کی آواز جاتی ہے اس لئے اس پر قصر جائز نہ ہوگا۔ تو اس جزئی سے معلوم ہوتا ہے کہ فقہاء نے دونوں گاؤں کو متحد قرار دیا ہے تو باب قصرمیں متحد قرار دیکر اس پر قصرکو ناجائز کیا، اسی طرح باب جمعہ میں بھی متحد قرار دیاجاوے۔ اگر یہاں پر قرار نہ دیا جاوے تو دونوں میں مابہ الفرق کیا ہے۔۔۔۔۔ جواب مع حوالہ کتب تحریرہو۔ فقط؟

جواب : قصر وعدم قصر کامدار تو بالا تفاق اتحاد موضعین پر ہے اور وجوب جمعہ و عدم وجوب کے مدار میں اختلاف ہے بعض اقوال میں اتحاد موضعین پر ہے اور سماع اذان وعدم سماع کا اس میں کوئی دخل نہیں جس کے کلام سے اس کے ساتھ تحدید مفہوم ہو تی ہو مقصود اس سے محض تمثیل کے طورپر امارۃ کا بیان کرنا ہے اور بعض اقوال میں عدم لحوق مشقت پر چنانچہ روایات ذیل شاہد ہیں ۔

في الدرالمختار: باب صلوةالمسافر۔ أوکان احدھما تبعاً للاٰخربحیث تجب الجمعة علی ساکنه للاتحاد حکماً، وفي رد المحتار: قوله : أو کان أحدھما تبعاً للاٰخرکالقرية التي قربت من المصر بحیث یسمع النداء علی ما یأتی في الجمعة وفي البحرلوکان الموضعان من مصر واحد أوقرية واحدة فإنها صحیحة لأنهما متحدان حکما ألاتری أنه لوخرج إليه مسافرًا لم یقصراه ج۱ص۸۴۴(۱)

وفي الدر المختار: باب صلوة الجمعة،  وأما المنفصل عنه(ای عن المصر) فإن کان یسمع النداء تجب عليه عند محمد وبه یفتی کذا في الملتقی وقدمنا عن الولوالجية تقدیره بفرسخ ورجح في البحر اعتبار عوده لبیته بلاکلفة.وفي رد المحتار: وصحح في مواهب الرحمن قول ابی یوسف بوجوبها علی من کان داخل حد الإقامة أي الذی من فارقه یصیر مسافراً وإذا  وصل إليه یصیر مقیماً وعلله في شرحه المسمی بالبرهان بأن وجوبها مختص باهل المصروالخارج عن هذاالحد لیس اهله وفيه بعد أسطرعن الخانية والمقیم في موضع من أطراف المصر إن کان بینه وبین عمران المصرفرجة من مزارع لاجمعة عليه وإن بلغه النداء الخ۔  ثم قال: بعد تصحیح هذا القول وترجیحه وینبغی تقیید مافي الخانية والتتارخانية بما إذا لم یکن في فناء المصر لما مرانها تصح إقامتها في الفناء ولومنفصلاً بمزارع فإذا صحت في الفناء لأنه ملحق بالمصریجب علی من کان فيه أن یصليها لأنه من اهل المصرکما یعلم من تعلیل البرهان ج۱ ص۸۵۲۔ (۱)

پس قول اول پر ان دونوں موضعوں کو دیکھا جاوے گا کہ عرفاً دونوں مستقل سمجھے جاتے ہیں یا متحد؟ پہلی صورت میں تو عدم صحت جمعہ ظاہر ہے اور دوسری صورت میں صرف اتحادکافی نہیں غایۃ ما فی الباب دونوں ملکرایک قریہ ہوجاوے گا مگر جس قریہ کبیرہ میں جمعہ کو جائز کہاگیا ہے اس کی تفسیر التي فیہا أسواق سے کی گئی ہے۔ کما فی ردالمحتار الجلد الاول ص۸۳۶ (۱) جس کا حاصل یہ ہے کہ صورت اس کی قصبات کی سی ہو اگریہ شان ہو تو جمعہ درصورت اتحاد ہما عرفاً جائز ہو جاوے گا والا فلا اور قول ثانی پر یعنی جبکہ مدار وجوب جمعہ کا عدم لحوق مشقت پر ہو وجوب جمعہ کا دونوں موضعوں کے اتحاد کو مستلزم نہ ہونا اور بھی ظاہر ہے کیونکہ اس تقدیر پر جمعہ من آواہ اللیل پر واجب ہے اوریقیناً وہ موضع مصر سے متحد نہیں اور خود وہاں جمعہ جائز نہیں ۔۔۔۔۔۱۸؍ رمضان ۱۳۲۷؁ھ بعد تحریر جواب ہذا ایک ثقہ مشاہد سے معلوم ہوا کہ جن قریوں کی نسبت سوال ہے وہ باہم اتنے متقارب نہیں ہیں کہ ان کو متصل ومتحد کہہ سکیں تو جواب اور بھی اظہر ہے کہ پھر احتمال ہی صحت جمعہ کا نہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved