- فتوی نمبر: 30-79
- تاریخ: 26 جولائی 2003
- عنوانات: عبادات > منتقل شدہ فی عبادات
استفتاء
میرا تعلق ضلع شانگلہ سے ہے، ہمارے علاقے( گاؤں میر جلے) میں تقریبا 200 گھر ہیں اور ہمارے گاؤں میں چار پانچ مساجد ہیں جن میں سے ایک میں عیدین اور جمعہ کی نماز ہوتی ہے اور ایک مسجد میں صرف عید کی نماز ہوتی ہے ہمارے گاؤں میں تمام ضروریات زندگی میسر نہیں مثلا تھانہ بازار ہسپتال ڈاک خانہ وغیرہ موجود نہیں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ:
1۔ مذکورہ صورت میں ہمارے گاؤں والوں پر جمعہ واجب ہے یا نہیں؟
2۔ نیز جس مسجد میں فقط عید ہوتی ہے وہ زیر تعمیر ہے تعمیر کے بعد اس میں بھی جمعہ شروع کرنے کا ارادہ ہے۔
وضاحت مطلوب ہے:(1) اگر سب سے بڑی مسجد میں گاؤں کے بالغ مردوں کو جمع کیا جائے تو کیا سارے اس میں
آ جائیں گے یا مسجد تنگ پڑ جائے گی؟ (2) بالغ مردوں کی تعداد کتنی ہے ؟
جواب وضاحت:(1)مسجد بھر جاتی ہے بلکہ باہر صفیں بنا کر نماز جمعہ ادا کی جاتی ہے(2)تقریباً 150 یا اس سے زیادہ ہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔مذکورہ صورت میں فقہ حنفی میں راجح قول کے مطابق آپ کے گاؤں والوں پر جمعہ واجب تو نہیں لیکن جو لوگ جمعہ پڑھ رہے ہیں انہیں روکنا اگر ممکن نہیں یا انہیں روکنے میں فتنے کا اندیشہ ہے تو انہیں نہ روکا جائے کیونکہ ایک قول کے مطابق ان کا جمعہ پڑھنا جائز ہے۔
توجیہ: فقہ حنفی کی رو سے جمعہ کی صحت کے لیے منجملہ دیگر شرائط کے ایک شرط یہ ہے کہ جس جگہ جمعہ ادا کیا جائے وہ مصر (شہر)یا قریہ کبیرہ (بڑی بستی) ہو یا انکی فنا ہو( فنا اس جگہ کو کہتے ہیں جو شہر کی اجتماعی ضرورتوں کے لیے مختص ہو) البتہ شہر یا بڑی بستی کی حد بندی میں مختلف اقوال ہیں جنکی تفصیل بدائع الصنائع ج:1،ص: 584-585 پر موجود ہے تاہم ان میں سے دو قول زیادہ مشہور ہیں۔
1۔بڑی بستی وہ کہلاتی ہے جس میں گلیاں اور محلے ہوں اور اس میں باقاعدہ بازار ہو جس میں ضروریات کی اکثر وبیشتر اشیاء دستیاب ہوں اور اس بستی میں کوئی ایسا والی ہو جو مظلوم کو ظالم سے انصاف دلانے پر قادر ہو اور لوگ اپنے پیش آمدہ مسائل میں اس کی طرف رجوع کریں اس شرط کے وجود کے لیے تھانہ یا پولیس چوکی ہونا بھی کافی ہے۔
2۔ بڑی بستی وہ کہلاتی ہے جس میں وہ بالغ مرد جن ہر جمعہ واجب ہوتا ہے اس قدر ہوں کہ اپنی بستی کی بڑی مسجد میں نہ سما سکیں ۔
پھر ان میں سے بھی زیادہ راجح پہلا قول ہے تاہم بعض اہل علم نے دوسرے قول کے مطابق بھی جمعہ کی اجازت دی ہے بالخصوص ایسی جگہ میں جہاں جمعہ شروع ہو چکا ہو اور اسے بند کرنے میں فتنہ ہو جیسا کہ آنے والے حوالوں میں سے کفایت المفتی کے حوالوں میں ہے ۔
بدائع الصنائع (1/ 585) ميں ہے:
«وروي عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمه وعلمه أو علم غيره والناس يرجعون إليه في الحوادث وهو الأصح»
بدائع الصنائع (1/ 584) ميں ہے:
أما المصر الجامع فقد اختلفت الأقاويل في تحديده …………. وفي رواية قال: إذا اجتمع في قرية من لا يسعهم مسجد واحد بنى لهم الإمام جامعا ونصب لهم من يصلي
شرح وقایہ (1/198) میں ہے:
وعند البعض موضع اذا اجتمع اهله في اكبر مساجده لم يسعهم فاختار المصنف هذا القول وما لا يسع اكبر مساجده اهله مصر. وانما اختار هذا القول دون تفسير الأول لظهور التوانى في احكام الشرع
کفایت المفتی( 2/231) میں ہے:
گاؤں میں جمعہ کا صحیح ہونا مجتہدین میں مختلف فیہ ہے حنفیہ کے نزدیک جواز جمعہ کے لیے مصر ہونا شرط ہے لیکن مصر کی تعریف میں اختلاف عظیم ہے تاہم جس مقام میں زمانہ قدیم سے جمعہ قائم ہو وہاں جمعہ کو ترک کرنے میں جو مفاسد ہیں وہ بدرجہا زیادہ سخت ہیں جو سائل نے جمعہ پڑھنے کی صورت میں ذکر کیے ہیں جو لوگ جمعہ کو جائز سمجھ کر جمعہ پڑھتے ہیں ان کا فرض ادا ہو جاتا ہے نفل کی جماعت یا جہر بقرات نفل نہار یا ترک فرض لازم نہیں آتا۔
کفایت المفتی( 2/232) میں ہے:
اگر آپ کے موضع میں عرصہ سے جمعہ جاری ہے اور متعدد مساجد یعنی دو یا دو سے زائد مسجدیں ہوں اور ان میں سے بڑی مسجد میں موضع کے مکلف بالجمعہ اشخاص نہ سما سکیں تو وہاں جمعہ پڑھتے رہنے میں مضائقہ نہیں ہے اور فرض ظہر ذمہ سے ساقط ہو جائے گا۔
المحيطالبرہانی (2/ 65) میں ہے:
«وفي تسميتها جمعة دليل على أن المصر شرط فإنما تسمى جمعة؛ لأنها جامعة للجماعات حتى وجب بنداء الجماعات يوم الجمعة»
بدائع الصنائع (1/ 269) ميں ہے:
«يسمى جمعة لاجتماع الجماعات فيها فاقتضى أن تكون الجماعات كلها مأذونين بالحضور إذنا عاما تحقيقا لمعنى الاسم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved