• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

گردوں کے ماہر ڈاکٹر کا اعضاء کی پیوندکاری والے ہسپتال میں نوکری کرنا

استفتاء

میں پیشے کے اعتبار سے نیفرولوجسٹ (گردوں کا ماہر) ڈاکٹر ہوں ۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا میں ایسے ہسپتال میں نوکری کر سکتا ہوں جہاں گردوں کی پیوند کاری ہوتی ہے ؟ اگر میں ایسے ہسپتال میں نوکری کروں تو میری ذمہ داری یہ ہو گی کہ میں نے مریض کی پیوند کاری کے ابتدائی مراحل پورے کرنے ہوں گے مثلا ٹیسٹ وغیرہ دیکھنا اور فائل تیار کر کے مریض کو سرجن کے سامنے پیش کرنا ۔ پھر پیوند کاری سرجن کرے گا میں نہیں کروں گا ۔ اور اسی طرح مریضوں کو پیوند کاری کا مشورہ بھی دینا پڑے گا کہ آپ پیوند کاری کروائیں ۔ کیا میرے لیے ایسی نوکری کرنا جائز ہے ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ نوکری جائز نہیں ہے۔

توجیہ: ہماری تحقیق کے مطابق اعضاء کی پیوند کاری جائز نہیں ہے ، اورمذکورہ نوکری میں  آپ کو ناجائز کام میں تعاون کرنا پڑے گا  کیونکہ سرجری سے پہلے کے سب  مراحل آپ کو دیکھنے پڑیں گے اور پیوند کاری کے لیے لوگوں کو ترغیب بھی دینی پڑے گی اس لئے یہ نوکری جائز نہیں۔

سنن ابی داؤد  (5/116)میں ہے:

عن عائشة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "‌كسر ‌عظم الميت ككسره حيا”

شامی (5/227) میں ہے:

لحم الانسان لا یباح فی الاضطرار.

شامی (5/222) میں ہے:

خاف الموت جوعا………  وان قال له الآخر اقطع يدى وكلها لا يحل.

ہندیہ (5/310) میں ہے:

مضطر لم يجد ميتة وخاف الهلاك فقال له رجل اقطع يدى وكلها أو قال اقطع مني قطعة وكلها لا يسعه ان يفعل ذلك ولا يصح امره به كما لا يسع للمضطر ان يقطع قطعة من نفسه فيأكل كذا في فتاوى قاضيخان ومثله في اكراه.

شرح سير کبیر (ص:269) میں ہے:

الا ترى أنه لو ابتلى بمخمصة لم يحل له أن يتناول احدا من اطفال المسلمين لدفع الهلاك عن نفسه.

جواہر الفقہ (7/61) میں ہے:

شریعتِ اسلام نے  صرف  زندہ انسان کے کار آمد  اعضاء ہی کا نہیں بلکہ قطع شدہ بے کار اعضاء واجزاء کا استعمال بھی حرام قرار دیا ہے اور مردہ انسان کے کسی عضو کی قطع وبرید کو بھی ناجائز کہا ہے اور اس معاملہ میں کسی کی اجازت اور رضامندی سے بھی اس کے اعضاء واجزاء کے استعمال کی اجازت نہیں دی اور اس میں مسلم وکافر سب یکساں ہے کیونکہ یہ انسانیت کا حق ہے جو سب میں برابر ہے، تکریم انسانی کو شریعت اسلام نے وہ مقام عطا کیا ہے کہ کسی وقت کسی حال کسی  کو انسان کے اعضاء واجزاء  حاصل کرنے کی طمع دامن گیر نہ ہو اور اس طرح یہ مخدوم کائنات اور اس کے اعضاء عام  استعمال کی چیزوں سے بالا تر ہیں جن کو کانٹ  چھانٹ کر یا کوٹ پیس کر غذاؤں اور  دواؤں اور دوسرے مفادات میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس پر ائمہ اربعہ اور پوری امت کے فقہاء متفق ہیں اور نہ صرف شریعت اسلام بلکہ شرائع سابقہ اور تقریباً ہر مذہب وملت میں یہی قانون ہے۔

مریض ومعالج کے اسلامی احکام (ص:379) میں ہے:

سابقہ بحث کا حاصل یہ ہے کہ دلائل کے اعتبار سے انسانی اعضاء کی پیوندکاری کا عدم  جواز ہی راجح ہے۔

فتاویٰ عثمانی (4/224) میں ہے:

پاکستان اور ہندوستان کے علماء کی اکثریت سرے سے ٹرانسپلانٹ کو جائز نہیں سمجھتی خواہ اعضاء زندہ آدمی سے لیے  جائیں یا مردہ سے یا قریب الموت سے  ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved