• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

گواہ کے خبر دینے کی صورت میں طلاق کا وقوع

استفتاء

میرا نام ****ہے۔ میری شادی چار سال پہلے عمر فاروق سے ہوئی تھی۔ گھریلو جھگڑے کی وجہ سے انہوں نے مجھے ایک طلاق دی جو میں نے سنی۔ رات کو مجھے بڑے بھائی اور بہنوئی لاہور سے لینے آئے جس پر انہوں نے مجھے میرے بچے دینے سے انکار کر دیا،میرا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے، بیٹا تین سال کا اور بیٹی سال کی ہے۔ انہوں نے میرے بہنوئی کے سامنے ایک طلاق اور دی جو میں نے نہیں سنی جب ہم پولیس کے پاس گئے تو وہاں بہنوئی نے کہا کہ دو بار میرے سامنے دی ہے جبکہ میرے شوہر عمر نے کہا کہ نہیں میں نے ایک بار آپ کو کہا تھا اور ایک بار صبا کو ، اس کے بعد بہنوئی  کہنے لگے کہ پھر ایک دفعہ ہی کہا ہوگا۔ میری خالہ جو میرے ساتھ رہتی ہے انہوں نے بھی پولیس کو کہا کہ ایک بار رات کو دی تھی دوبارہ نہیں دی۔

نوٹ: شوہر نے مذکورہ صورتحال کی تصدیق کی ہے اور کہا کہ میں نے بہنوئی کے سامنے بھی ایک مرتبہ ہی کہا تھا ، دو دفعہ نہیں کہا۔

دارالافتاء کے نمبر سے بہنوئی سے رابطہ کیا گیا تو اس نے کہا کہ میرے سامنے ایک دفعہ کہا کہ “میری طرف سے طلاق ہے” میں  نے اسے سمجھایا کہ تمہارے بچے ہیں لیکن اس نے پھر کہا کہ “میری طرف سے طلاق ہے” یہ لو حق مہر اور یہ کہہ کر حق مہر کے پیسے پکڑا دیئے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر لڑکی کو اپنے بہنوئی کی بات کا یقین ہے یا غالب گمان ہے کہ میرے بہنوئی جو دو مزید طلاقوں کی بات کر رہے ہیں وہ صحیح کہہ رہے ہیں تو لڑکی کے حق میں دو مزید طلاقیں واقع ہو چکی ہیں اور  ایک پہلی کو ملا کر کل تین طلاقیں ہو گئیں اور صلح یا رجوع کی گنجائش نہیں  اور اگر عورت کو بہنوئی کے سچے ہونے کا یقین یا غالب گمان نہ ہو  بلکہ شوہر کی بات کا یقین ہو تو ایسی صورت میں ایک طلاق رجعی اور واقع ہو گئی اور ایک پہلی کو ملا کر  کل دو طلاقیں ہو گئیں اور عدت کے اندر اندر رجوع کی گنجائش ہے ۔

توجیہ: طلاق کے معاملے میں عورت کی حیثیت قاضی کی طرح ہوتی ہے لہذا اگر اسے معتبر ذریعے سے شوہر کے طلاق دینے کی خبر پہنچے  تو اس کے لیے اس پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے مذکورہ صورت میں چونکہ لڑکی کے بہنوئی نے دو مزید طلاقوں کی خبر دی ہے لہذا اگر لڑکی کو اپنے بہنوئی کی بات کے سچا  ہونے کا غالب گمان ہے تو اپنے حق میں کل تین طلاقیں شمار  کرے گی اور اگر سچا  ہونے کا غالب گمان نہیں تو دو طلاقیں شمار کرے گی۔

شامی (4/449)میں ہے:

والمرأة ‌كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل لها تمكينه.

شامی (5/218) میں ہے:

وفيه عن الجوهرة: ‌أخبرها ‌ثقة ‌أن ‌زوجها الغائب مات، أو طلقها ثلاثا، أو أتاها منه كتاب على يد ثقة بالطلاق. إن أكبر رأيها أنه حق فلا بأس أن تعتد وتتزوج.

عالمگیری (1/470) میں ہے:

وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية.

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

فالحكم الاصلي بما دون ثلاث من الواحده البائنة والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق وزوال الملك ايضا حتى لا يحل له وطوها الا بنكاح جديد .

الاشباہ والنظائر (1/222) میں ہے:

وغالب الظن عندهم ‌ملحق ‌باليقين، وهو الذي يبتنى عليه الأحكام يعرف ذلك من تصفح كلامهم في الأبواب، صرحوا في نواقض الوضوء بأن الغالب كالمتحقق، وصرحوا في الطلاق بأنه إذا ظن الوقوع لم يقع، وإذا غلب على ظنه وقع

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved