• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

غیر عالم کا قرآن پاک کا غیر منقوط ترجمہ کرنا

استفتاء

آج کل جدید تعلیم یافتہ حضرات (خواہ حاضر سروس ہوں یا ریٹائرمنٹ کے بعد) نے قرآن پاک کے تراجم و تفاسیر کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، جن میں شرائط مفسر و مترجم پائی جاتی ہیں اور نہ ہی ان میں اتنی صلاحیت و استعداد ہے، بس کئی تراجم و تفاسیر سامنے رکھ کر ان میں سے کانٹ چھانٹ کر اپنا ایک نیا ترجمہ یا ایک نئی تفسیر تیار کر لیتے ہیں، اسی پر اکتفا نہیں بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر اردو زبان کے غیر منقوط الفاظ، کلمات اور جملوں پر مشتمل تراجم بھی کیے جارہے ہیں، ابھی حال ہی میں لاہور کی ایک یونیورسٹی یا کالج کے پروفیسر جو پی ایچ ڈی ڈاکٹر بھی ہیں نے قرآن پاک کا ترجمہ غیر منقوط الفاظ میں کیا ہے (جس کا نمونہ پیش خدمت ہے)۔ دریافت طلب یہ ہے:

الف: کیا غیر منقوط زبان (خواہ عربی ہو یا اردو) میں قرآن پاک کا ترجمہ کیا جا سکتا ہے؟ جبکہ غیر منقوط الفاظ اپنی تنگ دامنی کی وجہ سے انتہائی محدود ہوتے ہیں ان سے قرآن پاک کا صحیح ترجمہ ہو پاتا ہے اور نہ ہی قرآن پاک کی مراد واضح ہوتی ہے، قاری الٹا الجھن کا شکار ہو جاتا ہے، جس سے ترجمے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔

ب: ایسا کرنے کی دلیل دی جاتی ہے کہ ملا فیضی کی تفسیر "سواطع الالہام” بھی تو غیر منقطو ہے، لہذا ایسا کرنا جائز ہے۔ کیا ملا فیضی کی تفسیر جس پر ہر دور کے علماء  کرام کے تحفظات رہے ہیں کو جواز کا ذریعہ بنایا جا سکتا ہے؟

ج: گر غیر منقوط تراجم وہ بھی جو قرآن پاک کی مراد اور اس کے اصلی معانی کی توضیح و تشریح سے قاصر ہوں، کوئی اچھی بات ہوتی تو اس کو اعجاز قرآنی قرار دیا جا سکتا تو پھر بر صغیر میں ایسی کوشش اس سے قبل کیوں نہیں کی گئی؟ قرونِ اولیٰ کی مثال ملتی ہے اور نہ بعد کے اہل علم و دانش کے ادوار میں۔

د: میڈیا اس نئے ترجمے اور مترجم کا وسیع پیمانے پر تعارف کروا رہا ہے۔ کیا شرعاً اس کی گنجائش ہے؟

ھ: ہاں منظوم قرآنی ترجمے کے بارے میں فقہاء کرام کیا فرماتے ہیں؟

و: فقہاء نے ضرورت کی کیا تعریف کی ہے؟ کیا اس میں اس طرح کے غیر منقوط یا منظوم تراجم بھی داخل ہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جن لوگوں نے باقاعدہ طور سے دین کا علم حاصل نہ کیا ہو ان کو مختلف تراجم سامنے رکھ کر خود ایک نیا ترجمہ بنانا جائز نہیں کیونکہ علم کے بغیر تو آدمی غلطیاں ہی کرتا ہے۔

الف: جو شخص علوم قرآن اور دیگر ضروری علوم میں مہارت رکھتا ہو اور قرآن پاک کے لفظ اور اس کے ترجمے کی پوری رعایت کر سکتا ہو تو اگر وہ بلا تکلف غیر منقوط ترجمہ کرے تو عدم جواز کی کوئی وجہ نہیں، لیکن چودہ صدیوں میں اہل حق کی جانب سے ایسی کوئی کوشش سامنے نہیں آئی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی تنگ دامنی کی وجہ سے قرآن پاک کے مضمون پر  دلالت  مکمل

نہیں ہوتی ورنہ بڑے بڑے قادر الکلام گذرے ہیں وہ اس میدان کو خالی نہ چھوڑتے۔

ب: فیضی وغیرہ خود معتبر نہ تھے۔

ج: درست ہے۔

د: کسی ایسے شخص کا ترجمہ کرنا جو کم از کم باقاعدہ عالم نہ ہو یہ کوشش ہی درست نہیں اور میڈیا پر اس کی تشہیر تو فساد در فساد ہے۔

نمونے کے جو دو چار صفحے منسلک ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ ترجمہ میں بہت غلطیاں ہیں مثلاً

المستقم              کا ترجمہ کیا ہے               "عمود  و مسعود راہ” سے کیا ہے۔

الذين انعمت عليهم کا ترجمہ کیا ہے               "مکرم کئے ہوئے در الہٰی” کے۔

الضالين              کا ترجمہ کیا ہے               "رسوا ہوئے”۔

آمين                  کے لفظ کو شامل کیا ہے۔

قل …..              "اے محمد کہہ دو”۔ جو الفاظ مقدر نکالے جائیں ان کو بریکٹ میں لانا چاہیے۔

لم يلد و لم يولد       ترجمہ میں ترتیب الٹ دی۔ پھر ترجمہ میں ہے "سوال ہی معدوم ہے کہ وہ کسی کی اولاد ہو”۔ "سوال

ہی معدوم ہے” اس پر قرآن کا کوئی لفظ دلالت نہیں کرتا۔

نفاثات فی العقد     "امرأہ کے گرہوں”۔ جمع کو واحد سے بدل دیا۔

ہ: جب خود قرآن شعر نہیں ہے تو اس کا ترجمہ بھی شعر نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ اشعار و نظم والے کچھ نہ کچھ کمی بیشی کر دیتے ہیں۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved