• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

غیر معذور کا اپنے آپ کو معذور سمجھ کر نماز پڑھنے کا حکم

استفتاء

مجھے ہواسے وضو ٹوٹنے کی بیماری ہے۔یہاں تک کہ کئی مرتبہ  شرعی معذوری کی نوبت بھی آ جاتی ہے۔جب مرض شروع ہوا اور شدید  بھی تھا اور شرعی معذوری جیسے مسئلے سے لاعلمی بھی تھی تو ایک مسلک دیوبند کے مولانا صاحب جو جاننے والے تھے ان سے پوچھا، بھائی نے اس مسئلے کا تو انہوں نے شرعی معذوری کا نہیں بولا بلکہ یہ کہا کہ جب تک یہ بیماری ہے ایک وضو سے نماز پڑھ لی جائے بیشک پھر ٹوٹتا رہے وضو۔میں نے بے فکر ہو کر ایک وضو سے نماز پڑھنی شروع کردی۔ یہاں تک کہ میری بیماری سالوں تک محیط ہوگئی علاج معالجہ بھی نہیں کروایا۔تقریبا 3 سے چار سال تک میں نے ایک وضو سے نماز ادا کی۔اس وقت قطعا شرعی معذوری اور اسکی شرائط (جیسا کہ بہشتی زیور از حضرت تھانوی رحمتہ اللہ میں درج ہیں) سے ناواقفیت تھی۔میں نے سمجھا مجھے مستقل بیماری ہے کہ ایک نماز کے لئے بیشمار وضو کرنے پڑتے ہیں اور بیماری کم زیادہ ہوتی رہی ختم بالکل نہیں ہوئی ۔3 سے چار سال تک شرعی معذوری جیسی اصطلاح و شرائط سے نا واقف بس ایک وقت ایک وضو کرکے نماز پڑھ لی۔ہر نماز کےلئے تازہ وضو کر لیا۔

آیا میری یہ نمازیں ہو گئیں جبکہ ایسے مواقع آئے بھی ہوں گے کہ معذوری ختم ہوگئی  جیسے کہ اگر ایک نماز کا پورا وقت گزر جائے اور بیماری نہ ہو تو معذوری کی شرط ختم ہو گئی(جیسا کہ بہشتی زیور میں لکھا ہے)۔اب دوبارہ سے انتطار کرنا ہوگا شرعی معذوری کی شرائط پوری ہوں۔ کیا مجھے یہ 3 یا 4 سال کی نمازیں لوٹانی پڑیں گی یا میری نمازیں ادا ہو گئیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جو نماز آپ نے وضو کرکے  پڑھی اور سلام پھیرنے تک آپ کا وضو نہیں ٹوٹا اس نماز کو لوٹا نے کی ضرورت نہیں اور جس  نماز میں وضو کے بعد سلام پھیر نے سے پہلے آپ کا وضو ٹوٹ گیا اس میں یہ تفصیل ہے کہ اگر آپ اس نماز سے پہلے شرعی معذور بن چکے تھے اور اس نماز تک آپ کا یہ عذر ختم  نہیں ہوا تھا تو اس نماز کو لوٹا نے کی بھی ضرورت نہیں اس کے علاوہ باقی نمازوں کو لوٹانا ہوگا۔

الدرالمختار (1/555-553) میں ہے:

(وصاحب عذر من به سلسل) بول لا ‌يمكنه ‌إمساكه (أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب، وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة (إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة) بأن لا يجد في جميع وقتها زمنا يتوضأ ويصلي فيه خاليا عن الحدث (ولو حكما) لان الانقطاع اليسير ملحق بالعدم (وهذا شرط) العذر (في حق الابتداء، وفي) حق (البقاء كفی وجوده في جزء من الوقت) ولو مرة (وفي) حق الزوال يشترط (استيعاب الانقطاع) تمام الوقت (حقيقة) لانه الانقطاع الكامل.

البنایہ فی شرح الہدایہ(2/437) میں ہے:

وقال النووي: اجتمعت الأئمة على أن من صلى محدثا مع إمكان الوضوء فصلاته باطلة وتجب عليه الإعادة بالإجماع، سواء ‌تعمد ‌ذلك أو نسيه أو جهله على المذهب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved