• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

غیر مدخول بہا کو “طلاق، طلاق، طلاق دی” کہنے سے طلاق کا حکم

استفتاء

غیر مدخول بہا کو “طلاق ، طلاق، طلاق دی” کے الفاظ کہنے سے کتنی طلاقیں واقع ہوں گی؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ  صورت میں     تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی۔

توجیہ :         مذکورہ صورت   میں طلاق  طلاق  طلاق دی  کے الفاظ     ”   غیر مدخول بہا کو    ”میں نے  تمہیں تین طلاقیں دیں”  کے مترادف ہیں کیونکہ  جملہ اور کلام    اپنےآخر کیساتھ  مل کرپورا ہوتا ہے  اور مذکورہ   صورت میں بھی  جملہ”   طلاق طلاق طلاق دی ”    لفظ”دی ” پر پورا ہورہا ہےاور غیر مدخول  بہا کو اگر تین طلاقیں   اکٹھی دی جائیں  تو تینوں طلاقیں  واقع ہوجاتی ہیں      لہذامذکورہ صورت میں بھی تینوں طلاقیں اکٹھی  واقع ہوجائیں گی۔

المحیط  البرہانی (5/406) میں ہے:

وفي «فتاوى الفضلي» : ‌إذا ‌قال ‌لها ‌قبل ‌الدخول بها اكرتوزن مني بيك طلاق ودو طلاق دست باز داشته يقع ثلاث تطليقات، ولو لم يقل دست باز داشته تقع واحدة لأن في الوجه الأول الكلام إنما يتم عند قوله دست باز داشته لأنه صار مغيرا للأول فيتوقف فتقع الثلاث جملة

بدائع الصنائع فی ترتيب الشرائع (3/ 137)  میں ہے :

إذا ‌قال ‌لامرأته ‌قبل ‌الدخول ‌بها: أنت طالق ثلاثا أو قال: أنت طالق اثنتين وقع ذلك عند عامة العلماء.

وقال الحسن البصري: لا يقع إلا واحدة ويلغو قوله: ثلاثا أو اثنتين (وجه) قوله إن قوله: أنت طالق كلام تام لكونه مبتدأ وخبرا وقد سبق العدد في الذكر فيسبق في الوقوع فبين بقوله أنت طالق، والعدد يصادفها بعد حصول البينونة فيلغو كما إذا قال: أنت طالق وطالق.

(ولنا) أنه أوقع الثلاث جملة واحدة فيقع جملة واحدة، ودلالة الوصف من وجهين: أحدهما أن العدد هو الواقع وهو الثلاث وقد أوقع الثلاث مجتمعا، والثاني أن الكلام إنما يتم بآخره؛ لأن المتكلم ربما يعلق كلامه بشرط أو بصفة إلى وقت أو يلحق به الاستثناء لحاجته إلى ذلك فيقف أول الكلام على آخره، وإذا وقف عليه صار الكل جملة واحدة فيقع الكل جملة واحدة ولا يتقدم البعض على البعض

فتاویٰ عالمگیری(1/472) میں ہے:

إذا كان الطلاق بائنا ‌دون ‌الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية .

خیر الفتاویٰ (5/129) میں ہے:

کیا فرماتے ہیں علماء دین  دریں مسئلہ کہ زید نے اپنی منکوحہ غیر مدخولہ مسماۃ ہندہ کو کہا کہ “میں تجھے طلاق، طلاق، طلاق دیتا ہوں “بلکہ یہی الفاظ لکھ کر دیئے۔ اب مسماۃ مذکوریہ زید کے نکاح میں بغیر حلالہ کے آسکتی ہے یا نہیں؟

جواب: صورت مسئولہ میں زید کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں۔ بدون حلالہ زوجین میں تجدید عقد نکاح  جائز نہیں۔الفاظ مذکورہ انت طالق ثلاثا کے مشابہ ہیں کہ مجموعہ کا ایقاع ایک ہی لفظ آخر (دیتا  ہوں) سے ہورہا ہے۔ پس تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی۔

فتاوی محمودیہ (477/12)

سوال :- ایک شخص نے اپنی زوجۂ صغیرہ غیرمدخولہ بہا کو کہا کہ میں تجھے ایک دو تین طلاق مغلظہ دیتا ہوں یا اپنی زوجۂ مذکورہ سے یوں کہا کہ میں تجھے تین طلاق دیتا ہوں، اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ دونوں مذکورہ بالا صورتوں میں تینوں طلاق یکساتھ واقع ہوں گی یا نہیں؟

الجواب:دونوں صورتوں میں طلاق مغلظہ واقع ہوگئی، پہلی صورت میں اس لئے کہ طلاق صرف ایک دو تین سے واقع نہیں جب تک کہ اس کے ساتھ لفظ طلاق کا ذکر نہ کیا ہو اور جب لفظ طلاق کا ذکر کیا تو اس کا تعلق مجموعہ ایک دو تین سے ہوگا، اورلفظ مغلظہ اس کے لئے صفت کا شفہ بنے گی لو قال اگر فلانه بزنی کنم از من بیک ودوطلاق وسه طلاق فترزوجها تطلق واحدة ولو قال بيكے ودو وسه طلاق ثم تزوجها یقع الثلاث خلاصۃ الفتاویٰ ص۱؂: ۸۷، ج:۲، اس عبارت میں دو مسئلے ہیں اول میں ہر عدد کے ساتھ معدود کو ذکر کیا ہے، لہٰذا نکاح کے بعد فورا ایک طلاق واقع ہوگئی اور غیر مدخولہ ہونے کی وجہ سے دوسری اور تیسری کے لئے محل نہیں رہی، دوسرے مسئلہ میں عدد کو پہلے ذکر کیا ہے اور طلاق کو بعد میں لہٰذا وقوع طلاق کے وقت تمام اعداد اپنے معدود کے ساتھ منضم ہو کر مجموعہ تین طلاقیں واقع ہوں گی اور دوسری صورت میں تین طلاق کا واقع ہونا بالکل ظاہر ہے: طلق غیر المدخول بها ثلاثا وقعن سواء قال اوقعت علیک ثلاث تطلیقات او انت طالق ثلاثا البحرص:۲۹۱، ج:۱،۳

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved