• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

غیر معجل مہر کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ   ایک آدمی نے شادی کی، شادی کے بعد میاں بیوی کافی عرصہ ایک ساتھ رہے اور اولاد بھی ہے، اب بیوی طلاق لینا چاہتی ہے جبکہ شوہر بیوی کو بسانا چاہتا ہے،  شوہر نے مہرمعجل 35000ادا کر دیا تھا، ڈیڑھ تولہ غیر معجل مہر ادا  نہیں کیا تھا،  شوہر کہتا ہے کہ اگر میں طلاق دوں گا تو مجھے حق مہر دینا پڑے گا، پہلے بھی شادی پر بہت خرچہ ہوا ہے اور اب دوبارہ شادی پر خرچہ کرنا پڑے گا، لہذا میں حق مہر نہیں دوں گا، کیا مذکورہ صورت میں اگر شوہر طلاق دیتا ہے تو  بقیہ حق مہر شوہر کو ادا کرنا پڑے گا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں شوہر طلاق دے یا نہ دے ہر حال میں غیر معجل  مہر ادا کرنا شوہر کے ذمے واجب ہے، تاہم غیر معجل مہر کی اگر کوئی مدت مقرر کی گئی تھی تو اس مدت کے آنے سے پہلے بیوی  مہر کا مطالبہ نہیں کر سکتی، اور اگر کوئی مدت مقرر نہیں کی گئی تھی تو طلاق سے پہلے بیوی  مہر کا مطالبہ نہیں کر سکتی۔

عالمگیری (318/1) میں ہے:

ولو قال نصفه معجل ونصفه مؤجل كما جرت العادة في ديارنا ولم يذكر الوقت للمؤجل اختلف المشايخ فيه قال بعضهم لا يجوز الأجل ويجب حالا وقال بعضهم يجوز ويقع ذلك على وقت وقوع الفرقة بالموت أو بالطلاق وروى عن أبي يوسف رحمه الله تعالى ما يؤيد هذا القول، كذا في البدائع، لا خلاف لأحد أن تأجيل المهر إلى غاية معلومة نحو شهر أو سنة صحيح، وإن كان لا إلى غاية معلومة فقد اختلف المشايخ فيه قال بعضهم يصح وهو الصحيح وهذا؛ لأن الغاية معلومة في نفسها وهو الطلاق أو الموت ألا يرى أن تأجيل البعض صحيح، وإن لم ينصا على غاية معلومة، كذا في المحيط.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved