• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

غیر مسلم کیلئے صحت کی دعا کرنا

  • فتوی نمبر: 18-354
  • تاریخ: 21 مئی 2024

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

غیر مسلم کیلئے صحت کی دعا  کرنا کیسا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

غیر مسلم کیلئے اس نیت سے  صحت  کی دعا کرنا جائز ہے کہ شاید اللہ تعالیٰ اسے ہدایت  فرما دے۔ لیکن عوام کے ذہنوں میں عموماً ایسی نیتوں کا استحضار نہیں رہتا، اس لیے یا تو غیر مسلم کے لیے صحت کی دعا میں جسمانی صحت کے ساتھ روحانی صحت کے الفاظ کا بھی اضافہ کر لیا جائے۔

در مختار (6/ 413)  میں ہے:

لو قال لذمي أطال الله بقاءك إن نوى بقلبه لعله يسلم أو يؤدي الجزية ذليلا فلا بأس به

فتاوی ہندیہ(5/ 348) میں ہے:

إذا قال للذمي أطال الله بقاءك إن كان نيته أن الله تعالى يطيل بقاءه ليسلم أو يؤدي الجزية عن ذل وصغار فلا بأس به وإن لم ينو شيئا يكره كذا في المحيط

فتاویٰ شامی (6/ 388) میں ہے:

قوله ( وجاز عيادته ) أي عيادة مسلم ذميا نصرانيا أو يهوديا لأنه نوع بر في حقهم وما نهينا عن ذلك وصح أن النبي عاد يهوديا مرض بجواره

فتاویٰ محمودیہ (420/24) میں ہے:

سوال: غیر مسلم مریضوں کی خدمت نصرت اور تیمارداری کرنا کیسا ہے؟ بعد از نماز ان کے لئے دعاءِ صحت کرنا کیسا ہے؟

الجواب : ایسا کرنا بلندی اخلاق ہے جب کہ کوئی دنیوی لالچ نہ ہو ، دعائے صحت بھی درست ہے کہ حق تعالیٰ ہدایت دے۔

کفایت المفتی(57/9) میں ہے:

سوال: مسٹر گاندھی ۲۱ روز کابرت رکھتے ہیں تاکہ ہندومسلم اتحاد ہو ان کے برت کے بخیر و خوبی اختتام ہونے پر ہندو تمام ہندوستان میں اظہار مسرت کے جلسے منعقد کرتے ہیں جس میں مسٹر گاندھی کی صحت و سلامتی  و درازی عمر کی دعائیں مانگی جاتی ہیں مسلمان شرکت سے محترز رہتے ہیں مگر کسولی کی واحد مسجدکے پیش امام صاحب اس جلسے میں شریک ہوتے ہیں اس کی صدارت فرماتے ہیں اور جلسے کے مقاصد کی تکمیل  فرماتے ہیں کیا امام صاحب کا یہ فعل کفر و شرک کی حمایت نہیں  ہے ؟

جواب:  کسی غیر مسلم کی درازی عمر  کے لئے دعا مانگنا اس نیت سے کہ شاید خدا تعالیٰ اس کو ہدایت فرمادے اور وہ آئندہ عمر میں نور اسلام سے منور و مستنیر ہوجائے جائز ہے پس جلسہ مذکورہ کی شرکت و صدارت کے لئے ایک جائز محمل ہوسکتا ہے اور لوگوں کو زیبا نہیں کہ وہ اس بنا پر امام صاحب کو محل طعن و تشنیع بنائیں۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved