• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

غير مسلم كوگھر پر ملازم رکھنا

استفتاء

1.کیا عیسائی مذہب کی عورت کو گھر پر برتن کپڑوں وغیرہ کے کام کاج کے لیے رکھا جاسکتا ہے؟

2.اِس کے ہاتھ کا   پکا ہوا کھاناا ور  روٹی کھانا کیسا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1.مذکورہ کاموں کے لیے عیسائی عورت کو ملازم رکھا جاسکتا ہے تاہم چونکہ ان کو عموماً پاکی ناپاکی کا خیال نہیں ہوتا اس لیے اگر کوئی خاص مجبوری نہ ہو  تو بہتر یہ ہے کہ مذکورہ کاموں کے لیے عیسائی عورت کو  ملازم نہ رکھا جائے۔

2.عیسائی عورت کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا اور روٹی جائز ہے بشرطیکہ وہ پاکی ناپاکی کا خیال رکھتی ہو ، تاہم اس کے باوجود طبعاً مکروہ ہے، لہٰذا اگر خاص مجبوری نہ ہو تو عیسائی عورت  کے ہاتھ کے پکے ہوئے کھانے اور روٹی سے بچا جائے۔

(1)فتاویٰ عالمگیری (5/346) میں ہے:

لا بأس بأن يكون بين المسلم والذمي معاملة إذا كان مما لا بد منه كذا في السراجية…….. قال محمد رحمه الله تعالى ويكره الأكل والشرب في أواني المشركين قبل الغسل ومع هذا لو أكل أو شرب فيها قبل الغسل جاز ولا يكون آكلا ولا شاربا حراما وهذا إذا لم يعلم بنجاسة الأواني فأما إذا علم فأنه لا يجوز أن يشرب ويأكل منها قبل الغسل ولو شرب أو أكل كان شاربا وآكلا حراما

(1)فتح الباری (4/442) میں ہے:

قال ابن بطال عامة الفقهاء يجيزون استئجارهم عند الضرورة وغيرها لما في ذلك من المذلة لهم وإنما الممتنع أن يؤجر المسلم نفسه من المشرك لما فيه من اذلال المسلم اه

(1) فتاویٰ محمودیہ(23/239) میں ہے:

سوال: غیر مسلم عورت یا مرد سے جب کہ کوئی مسلم عورت یا مرد کم قیمت پر پانی بھرے اور گھر کے برتن وغیرہ دھونے کے لیے نہیں ملتے  تو ان سے کام لینا کیسا ہے؟

جواب: درست ہے۔

(1)فتاوی محمودیہ (5/271) میں ہے:

ہندو دھوبی کے دھوئے ہوئے کپڑوں کا حکم

سوال: جو ہندو دھوبی کپڑے دھوتے ہیں وہ پاک ہیں یا ناپاک؟

جواب:  ناپاک کپڑا ہندو کے پاک کرنے سے بھی پاک ہوجاتا ہے، پس جب تک کسی نجاست کا علم نہ ہو، ہندو دھوبی کا دھویا ہوا کپڑا پاک ہے،البتہ مسلمان دھوبی سے دھلانا بہتر ہے۔

(2)فتاویٰ عالمگیری (5/347) میں ہے:

ولا بأس بطعام اليهود والنصارى كله من الذبائح وغيرها ويستوي الجواب بين أن يكون اليهود والنصارى من أهل الحرب أو من غير أهل الحرب وكذا يستوي أن يكون اليهود والنصارى من بني إسرائيل أو من غيرهم كنصارى العرب ولا بأس بطعام المجوس كله إلا الذبيحة ، فإن ذبيحتهم حرام ولم يذكر محمد رحمه الله تعالى الأكل مع المجوسي ومع غيره من أهل الشرك أنه هل يحل أم لا وحكي عن الحاكم الإمام عبد الرحمن الكاتب أنه إن ابتلي به المسلم مرة أو مرتين فلا بأس به وأما الدوام عليه فيكره كذا في المحيط .

(2)کفایت المفتی (2/310) میں ہے:

۔۔۔(جواب)  مسئلہ شرعیہ  فقہاء حنفیہ   کے نزدیک  یہی ہے کہ  کافر کا بدن پاک ہے جب کہ ا س پر کوئی ظاہری نجاست نہ ہو ۔ کافر  کا جھوٹا بھی پاک ہے پس اگر اس کا اطمینان کرنے کے بعد کہ کھانے میں کوئی  ناجائز و ناپاک چیز نہ تھی ،اور  پکانے والے اورکھلانے والوں کے ہاتھ بھی کسی نجاست سے ملوث نہیں تھے تو ان کے ہاتھ کے کھانے میں کوئی شرعی جرم نہیں ہے۔ 

(2) فتاوی محمودیہ (5/273) میں ہے:

غیر مسلم سے مٹھائی لینا اور کپڑے دھلوانا

سوال: ہندو دھوبی کے یہاں کے دھلے ہوئے کپڑوں سے نماز ہوجاتی ہے یا نہیں اور ہندو کے یہاں کی مٹھائی وغیرہ کھانا جائز ہے یا نہیں؟

جواب:  اگر کسی جگہ نجاسست کا یقین یا غلبہ ظن نہ ہو تو مٹھائی اور کپڑا پاک ہےاور نماز درست ہوجائے گی، تاہم مسلمان سے کپڑے دھلانا اور مٹھائی لینا بہتر ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved