- فتوی نمبر: 11-5
- تاریخ: 17 فروری 2018
- عنوانات: عبادات > زکوۃ و صدقات
استفتاء
1۔کیا غیر مسلم کو خیرات کی جاسکتی ہے؟
2۔اور کیا یہ قابل ثواب ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔غیر مسلم کو خیرات دینے میں مندرجہ ذیل تفصیل ہے :
الف :جو غیر مسلم ذمی ہو یعنی مسلمان ملک کا باشندہ ہو اس کو زکوۃ او ر عشر دینا بالاتفاق جائز نہیں ،البتہ زکوۃ ،وعشر کے علاوہ دیگر صدقات واجبہ مثلا صدقہ فطر ،نذر اور کفارات دینے میں اختلاف ہے ۔حنفیہ میں سے امام ابویوسف ؒ کے نزدیک یہ صدقات دینا بھی جائز نہیں اور بعض حضرات نے امام ابویوسف ؒ کے قول کو مفتی بہ کہا ہے جبکہ امام ابوحنیفہ اور امام محمد ؒکے نزدیک یہ صدقات دینا جائز ہے۔ صدقات واجبہ کے علاوہ نفلی صدقات دینا بالاتفاق جائز ہے ۔احتیاط نہ دینے میں ہے۔
نوٹ :جو غیر مسلم مسلمان ملک کا باشندہ ہو اس سے مراد وہ غیر مسلم ہے جو زندیق مثلا (مرزائی) نہ ہو ۔
ب:جو غیر مسلم حربی ہو یعنی کافر ملک کا باشندہ ہو اس کو واجب یا نفلی صدقات وخیرات دینا جائز نہیں،البتہ ایسے غیر مسلم کو ہدیہ دے سکتے ہیں ۔
2۔جس غیر مسلم کو صدقات وخیرات دینا جائز ہے اسے دینے سے ثواب بھی ملے گا ۔
درمختار 3/354 میں ہے:
ولا تدفع الی ذمی … وجاز دفع غیرها وغیر العشر والخراج اليه ای الذمی ولو واجبا کنذر وکفارة وفطرة خلافاللثانی وبقوله یفتی وتحت قوله ان دفع سائر الصدقات الواجبة اليه لایجوز اعتبارا بالزکوة واما الحربی ولو مستامنا فجمیع الصدقات لا تجوز به اتفاقا…
فتاوی تارتارخانیہ3/212میں ہے:
ولایجوز ان یدفع الزکاة الی ذمی الی قوله ولایجوز صرفها الی الحربی واما اهل الذمة لایجوز صرف الزکاة اليهم بالاتفاق ویجوز صرف التطوع اليهم بالاتفاق.
فتاوی شامی3/354میں ہے:
ان النبی ﷺ بعث خمسمائة دینار الی مكة حین قحطوا وامر ان یدفعها الی سفیان بن حرب لیفرق علی فقراء اهل مكة (الی آخره)ولان صلة الرحم محمودة فی کل دین والاهداء الی الغیر من مکارم الاخلاق
© Copyright 2024, All Rights Reserved