• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

غیرمستحق شخص کوزکوۃکی رقم ولیمہ کے وقت صرف بل اداکرنے کے لیے دینا

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام بیچ اس مسئلہ کے کہ ہمارے ایک عزیز کی شادی تھی جو کہ ہمارے خیال میں مستحق زکوۃ تھا ۔ہم تین رشتے داروں نے اس کے ولیمےکا انتظام اپنے ذمہ لے لیا، بعد میں ایک رشتہ دار نے کہا میرے پاس زکوٰۃ کے پیسے ہیں،میں سارے ولیمے کے انتظام کی رقم اکیلا اپنی زکوۃ میں سے ادا کردیتا ہوں ۔ہم نے ولیمہ کے دن جس آدمی کی شادی تھی اس کو ولیمہ کے اخراجات سے اندازاًکچھ  زیادہ رقم اس کے حوالے کردی ،اس کو بتائے بغیر کہ یہ زکوۃ کے پیسے ہیں اور اس سے کہا کہ تم شادی ہال کا سارا بل خود اس میں سے آدھا کر دو تاکہ تمہاری عزت بھی رہے کہ تم نے خود کیا ہے۔اس میں دو باتیں پوچھنی ہیں(1 )ولیمہ کے دن اور بارات کے دن اس کو جو رقم حوالے کرنے سے پہلے اس کو سلامی بھی ہوئی جس کی رقم تقریبا70ہزار تھی۔ اس صورت میں بھی مستحق زکوۃ رہتا تھا کہ نہیں؟(2) جس کو زکوۃ دی ہال کا انتظام  اور کھانے کا انتظام زکوۃ دینے والے نے خود کیا تھا ۔ اس صورت مذکورہ میں زکوٰۃ ادا ہوگئی کہ نہیں؟ اگر نہیں ہوئی تو وجہ بھی بتادیں تاکہ آئندہ احتیاط کریں؟

وضاحت مطلوب ہے:

کیا زکوۃ دینے والے کو زکوۃ دینے سے پہلے یہ معلوم تھا کہ مذکورہ شخص کے پاس ستر ہزار روپے ہیں؟

جواب وضاحت:

مفتی صاحب! اس بندے کے پاس سلامی کے پیسے تھے ،یہ معلوم نہیں کہ کتنے تھے، ہمارے ذہن میں تھا جتنے بھی اس کے پاس پیسے آئے ہیں وہ سال گزرنے پر صاحب نصاب  شمار ہوگا

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1.مذکورہ صورت میں یہ شخص مستحق زکوۃ نہیں رہتا۔

2.مذکورہ صورت میں زکوٰۃ ادا نہیں ہوئی ایک تو اس وجہ سے کہ زکوۃ دینے والے کو یہ تو معلوم تھا کہ اس کے پاس سلامی کے پیسے ہیں، اب وہ کتنے ہیں؟ زکوٰۃ دینے والے کو اس سے غرض نہیں تھی ،کیونکہ اس کا خیال یہ تھا کہ جتنی بھی رقم ہو، جب تک اس کا سال نہیں گزرتااس وقت تک یہ شخص مستحق زکوٰۃ ہے یہ زکوۃ دینے والے کی لاعلمی (جہالت) ہے،اورلاعلمی(جہالت) کا اعتبار نہیں اور دوسرے اس وجہ سے مذکورہ شخص سے کہا تھا کہ ولیمے کا انتظام ہم کریں گے جس کی وجہ سے ولیمے کا خرچہ بھی زکوۃ دینے والوں کے ذمے ہوا، انھوں نے اپنے واجب کی ادائیگی مذکورہ شخص کے ذریعےسے کروائی اور مذکورہ شخص بھی اپنے آپ کو محض ادائیگی کا ذریعہ سمجھ رہا  ہے اپنے آپ کو حقیقی مالک نہیں سمجھ رہا لہذا تملیک کی حقیقت متحقق نہیں ہوئی

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved