• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

غیر قانونی طریقے سے تصدیق شدہ موبائل بیچنے کاحکم

استفتاء

ء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

میں موبائل کا کام کرتا ہوں۔ ہمارے پاس باہر ملک سے موبائل آتے ہیں جو پی ٹی اے سے تصدیق شدہ نہیں ہوتے، ہم ان کو دو نمبر طریقے سے کسی دوسرے موبائل پر تصدیق کر دیتے ہیں۔

کیا یہ کمائی ہمارے لیے جائز ہے یا نہیں؟ اور کیا گاہک کو بتانا ضروری ہے کہ یہ دو نمبر طریقے سے تصدیق ہوا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

پی ٹی اے  (PTA) پاکستا ن ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی سے غیر تصدیق شدہ موبائل کو دو نمبر طریقے سے تصدیق کرانے میں ملک کے قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے، اس لیے ایسا کام نہ کیا جائے۔ پھر بھی کوئی ایسا کام کر کے موبائل بیچے تو کمائی جائز ہو گی۔ البتہ گاہک کو بتانا پھر بھی ضروری ہو گا، کیونکہ غیر قانونی تصدیق کرنا موبائل میں ایک عیب کے درجہ میں ہے  کہ حکومت کسی وقت بھی تحقیق کرکے وہ موبائل بند کرسکتی ہے ۔نیز جس شخص کے نام پر یہ موبائل تصدیق شدہ ہے اس کے کسی قانونی مسئلہ کی وجہ سے اس کی بھی پکڑہوسکتی ہے۔

فتاویٰ عثمانی (88/3) میں ہے:

سوال: اسمگلنگ کی گھڑیاں جو آدھی قیمت پر فروخت کی جاتی ہیں، ان کی خرید کیسی ہے؟

جواب: اگر ان گھڑیوں کی خرید میں جھوٹ بولنا یا کسی اور گناہ کا ارتکاب نہ کرنا پڑے تو خریدنا جائز ہے۔

فتاویٰ عثمانی (89/3) میں ہے:

اسمگلنگ جائز ہے یا ناجائز؟ بعض حضرات اس کو جائز کہتے ہیں، جبکہ حکومت کی طرف سے یہ کاروبار بند ہے اور عزت کا بھی خطرہ ہے۔

2۔ اگر ملک کے اندر یہ چیزیں پہنچ جائیں تو بعد میں ملک کے اندر علی الاعلان اس کی تجارت کی جاتی ہے، کیا ایسا سامان خریدنا جائز ہے یا نہیں؟

3۔ بعض لوگ ملک کی سرحدوں پر رہتے ہیں، مثلاً ایران کی سرحد پر تو یہ لوگ اپنی ضروریات پاکستان اور ایران دونوں جگہ سے پوری کرتے ہیں، ان کے جواز کی صورت ہے؟

4۔ اگر کوئی شخص خود ایران نہ جائے بلکہ اپنے ایرانی دوست کو لکھ کر اپنے لیے سامان منگوائے اور وہ خرید کر روانہ کر دے۔ مثلاً ایران سے آج کل موٹر سائیکلیں مکران کے راستے بہت آرہی ہیں، لوگ ادھر خرید کر لوگ مجبوراً کراچی میں اس کے کاغذات بنواتے ہیں، چونکہ بغیر کاغذ کے چلانا  منع ہے، کراچی میں نمبر حاصل کرنے کے لیے ہزار ڈیڑھ ہزار خرچ ہوتا ہے، عوام و خواص اس میں مبتلا ہیں، کیا یہ جائز ہے؟

جواب: (1سے 4): اصل یہ ہے کہ شرعاً ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ اپنے مملوک روپے سے اپنی ضرورت یا پسند کا جو مال جہاں سے چاہے خرید سکتا ہے، لہذا کسی بیرونی ملک سے مال خریدنا وہاں لے جا کر بیچنا شرعاً مباح ہے، لیکن ایک صحیح اسلامی حکومت اگر عام مسلمانوں کے مفاد کی خاطر کسی مباح چیز پر پابندی عائد کر دے تو اس کی پابندی کرنا شرعاً  بھی ضروری ہو جاتا ہے، اب موجود مسلمان حکومتوں نے چونکہ اسلامی قوانین کو ترک کر کے غیر اسلامی قوانین نافذ کر رکھے ہیں، لہذا ان کو وہ اختیارات نہیں دیے جا سکتے جو صحیح اسلامی حکومت کو حاصل ہوتے ہیں لیکن ان کے احکام کی خلاف ورزی میں چونکہ بہت سے منکرات لازم آتے ہیں مثلاً اکثر جھوٹ بولنا پڑتا ہے، نیز جان و مال یا  عزت کو خطرے میں ڈالنا پڑتا ہے، لہذا ان کے جائز قوانین کی پابندی کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ جب کوئی شخص کسی ملک کی شہریت اختیار کرتا ہے تو وہ قولاً یا عملاً یہ معاہدہ کرتا ہے کہ وہ اس حکومت کے قوانین کا پابند رہے گا، اس معاہدے کا تقاضا بھی یہ ہے کہ جب تک حکومت کا حکم معصیت پر مشتمل نہ ہو اس کی پابندی کی جائے۔

اسمگلنگ کا معاملہ بھی یہ ہے کہ اصلاً باہر کے ملک سے مال لے کر آنا یا یہاں سے باہر لے جانا شرعی اعتبار سے جائز ہے لیکن چونکہ حکومت نے اس پر پابندی لگا رکھی ہے اور اس پابندی کی خلاف ورزی میں مذکورہ مفاسد پائے جاتے ہیں۔ اس لیے علماء نے اس سے منع فرمایا ہے، اور اس سے اجتناب کی تاکید کی گئی ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved